کشیدگی روکنے میں سعودی عرب نے کلیدی کردار ادا کیا: ایرانی سفیر

ایرانی سفیر علی رضا عنایتی نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کو ایسی کامیابیوں کے برابر قرار دیا جو عموماً برسوں میں حاصل ہوتی ہیں۔

اپریل 2024 کو تہران میں سعودی شہزادہ خالد بن سلمان اور ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے درمیان ملاقات کا منظر (فارس نیوز ایجنسی)

ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کو تقریباً دو سال گزرنے کے بعد ریاض میں تعینات ایرانی سفیر ڈاکٹر علی رضا عنایتی نے کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کو فروغ دینے میں سعودی عرب کے کردار کو سراہا ہے۔

عرب روزنامہ ’الشرق الاوسط‘ سے گفتگو کرتے ہوئے علی رضا عنایتی نے اس پیش رفت کو ’ایسی کامیابیوں کے برابر قرار دیا جو عموماً برسوں میں حاصل ہوتی ہیں‘ اور اس رشتے کی ’گہری بنیادوں اور مضبوطی‘ پر زور دیا۔

علی رضا عنایتی، جنہوں نے پہلی بار 1990 میں جدہ میں ایران کے قونصل کے طور پر خدمات انجام دیں اور بعد ازاں ریاض میں ناظم الامور رہے، 2023 میں دوبارہ سفیر بن کر اس وقت ریاض واپس آئے جب چین کی ثالثی میں مارچ میں سات سالہ تعطل کے بعد دونوں ممالک نے تعلقات بحال کیے۔

حال ہی میں ایران پر اسرائیلی حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے علی رضا عنایتی نے ان کارروائیوں کو ’کھلی جارحیت‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب تہران واشنگٹن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا: ’ایران پر رات کے وقت حملہ کیا گیا جب لوگ گھروں میں سو رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت یہ ہمارا جائز حق تھا کہ ہم فیصلہ کن جواب دیں اور یہ واضح کریں کہ اگرچہ ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن وہ پوری طاقت اور عزم سے اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔‘

انہوں نے زور دیا کہ اس کشیدگی پر خطے کے ردعمل نے یکجہتی کا جذبہ اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے وزیر خارجہ کو سب سے پہلی فون کال سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی طرف سے آئی جس میں ان حملوں کی مذمت کی گئی اور پھر سعودی وزارت خارجہ کا باضابطہ بیان بھی آیا۔ ان موقف کی تکمیل اس وقت ہوئی جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کو فون کر کے یکجہتی کا اظہار کیا، جس پر ایرانی صدر نے بھی جوابی فون کیا۔ بعد ازاں خلیجی ممالک کی طرف سے بھی حمایت کے بیانات سامنے آئے۔‘

عنایتی نے بحران کو کم کرنے میں سعودی کردار کو ’قابل عزت‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’ہماری پوری طرفہ گفتگو میں ایران نے سعودی عرب کے تعمیری مؤقف اور مزید جارحیت کو روکنے کی کوششوں کو سراہا ہے۔ ہم اپنے سعودی بھائیوں، خصوصاً ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے کسی بھی تعمیری کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں جو ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان سفری پابندیوں کے خاتمے کو تعلقات کی بہتری کی علامت قرار دیا۔

ان کے بقول: ’صرف اس سال دو لاکھ سے زائد ایرانیوں نے عمرہ ادا کیا اور اگر حجاج کو شامل کریں تو مملکت کا دورہ کرنے والے ایرانیوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی جو نہایت مثبت اشارہ ہے۔‘

علی رضا عنایتی نے سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے حالیہ تہران دورے کو ایک ’تاریخی موڑ‘ قرار دیا جس سے تعلقات میں معمول سے نکل کر سٹریٹیجک شراکت داری کی راہ ہموار ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’صدر مسعود پزشکیان اور رہبر اعلیٰ سے ملاقاتوں نے واضح پیغام دیا کہ ہم علاقائی استحکام کی تعمیر میں شراکت دار ہیں۔‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ سیاسی پیش رفت قابلِ ذکر ہے دونوں ممالک کے درمیان تاہم اقتصادی و تجارتی تعلقات میں مزید کام کی ضرورت ہے۔

ایرانی سفیر کے بقول: ’ہمارے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، ثقافت اور نوجوانوں سے متعلق معاہدے بیجنگ معاہدے کے تحت طے پا چکے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ دوہرے محصولات سے بچاؤ، باہمی سرمایہ کاری کے فروغ اور سعودی عرب کو وسطی ایشیا سے ملانے والے زمینی ٹرانسپورٹ راہداری منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔

ایران پر خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے الزامات پر جواب دیتے ہوئے علی رضا عنایتی نے کہا: ’ہم بیرونی قوت نہیں ہیں جو زبردستی اپنا وجود مسلط کریں۔ ہم اس خطے کا حصہ ہیں، یہاں کے لوگوں اور ثقافت کے ساتھی ہیں۔ سیاسی نظریات میں اختلاف ہمارے مشترکہ رشتوں کو ختم نہیں کر سکتا۔ بات چیت ہی واحد راستہ ہے، اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔‘

اختتام پر انہوں نے زور دیا کہ ’حقیقی علاقائی سلامتی صرف عسکری مقابلے کے بجائے ترقی اور اقتصادی تعاون پر مبنی ہونی چاہیے۔ جب سلامتی ہتھیاروں اور جغرافیائی سیاست سے نکل کر خوشحالی اور مشترکہ ترقی پر مرکوز ہو، تو اس کا فائدہ سب کو ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا