بنگلہ دیش رواں ہفتے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور تجارتی وفد کی میزبانی کر رہا ہے جو کئی برسوں میں بنگلہ دیش میں سب سے اعلیٰ سطح کے پاکستانی مہمان ہوں گے۔
اس اقدام کا مقصد اُن تعلقات کو دوبارہ درست سمت میں لانا ہے جو 1971 کی جنگ سے متاثر ہوئے اور جنہیں خطے کی بدلتی ہوئی طاقت کی سیاست نے تشکیل دیا۔
پاکستان کے وزیر تجارت جام کمال خان جمعرات کو ڈھاکہ پہنچے تھے اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی آمد ہفتے کو متوقع ہے۔
دونوں مسلمان اکثریتی ممالک کے درمیان رابطہ طویل عرصے تک محض ثقافتی تعلقات تک محدود رہا، جس میں کرکٹ، موسیقی اور معروف پاکستانی کاٹن سے مشترکہ لگاؤ شامل ہے، جس سے شلوار قمیص تیار کی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش نے انڈیا پر زیادہ انحصار کیا، جو 17 کروڑ آبادی والے ملک کو تقریباً چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
تاہم گذشتہ سال ڈھاکہ میں عوامی تحریک، جس نے انڈیا کی دیرینہ اتحادی شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹا دیا، نے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو کمزور کر دیا اور اسلام آباد کے ساتھ مکالمے کے دروازے کھول دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا، جس نے مئی میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ جنگ لڑی، صورت حال پر گہری نظر رکھے گا۔
امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے کہا کہ ’بنگلہ دیش خطے میں انڈیا کا قریبی ترین شراکت دار رہا ہے اور اب وہ انڈیا کے بڑے حریف سے قربت بڑھا رہا ہے۔‘
بنگلہ دیشی اخبارات کے مطابق آخری بار کوئی پاکستانی وزیر خارجہ 2012 میں ڈھاکہ آیا۔
پاکستان اور بنگلہ دیش نے گذشتہ سال سمندری تجارت شروع کی اور فروری میں حکومت سے حکومت کے درمیان تجارت کو وسعت دی۔
نیویارک میں مقیم بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد کے مطابق: ’یہ ایک نئی سٹریٹیجک مساوات کا فروغ ہے۔ ایسی مساوات جو انڈین اثر و رسوخ کو کم کرتی ہے اور اس کی بجائے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعاون پر مبنی محور کو مضبوط بناتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر یہ عمل جاری رہا تو اس میں جنوبی ایشیا کے جغرافیائی اور معاشی ڈھانچے کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی صلاحیت موجود ہے۔‘
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت، جس کی قیادت نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں، اس بات پر شدید برہمی کا اظہار کر رہی ہے کہ شیخ حسینہ انڈیا چلی گئیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے برابر الزامات کا سامنا کرنے کے لیے جاری ہونے والے سمن کی خلاف ورزی کی۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار تھامس کین نے کہا کہ ’محمد یونس کے دور میں اعلیٰ سطح کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ تجارتی تعلقات کو فروغ ملا۔ دونوں ملکوں نے ویزا قوانین میں نرمی پر اتفاق کیا اور کچھ محدود فوجی تعاون بھی ہوا۔‘
اس کے باوجود مفاہمت کو رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
1971 کے قتل عام پر پاکستان سے معافی کے مطالبے بنگلہ دیش میں اب بھی مقبول ہیں، لیکن خارجہ پالیسی کے ماہر قمر چیمہ کا خیال ہے کہ اسلام آباد کے ایسا کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
اسلام آباد کے صنوبر انسٹی ٹیوٹ کے چیمہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ معاملات صرف اسی صورت ممکن ہیں کہ اگر ڈھاکہ تعلقات کو دوبارہ قائم کرتے وقت تاریخی دشمنی کو شامل نہ کرے۔
’بنگلہ دیش ہمیشہ معافی کا مطالبہ کرتا رہا ہے جو (پاکستان) نے کبھی نہیں مانگی اور آج بھی اس کا کوئی ارادہ نہیں۔‘
جب ڈھاکہ کے مشیر برائے خارجہ امور محمد توحید حسین سے پوچھا گیا کہ کیا بنگلہ دیش عوامی معافی کا مسئلہ اٹھائے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ ’تمام معاملات میز پر ہوں گے۔‘
بنگلہ دیش کی عدالتوں نے 1971 کی جنگ کے دوران ’نسل کشی‘ کے الزامات میں کئی افراد کو سزا دی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کی نسلی صفائی میں مدد کی۔
ڈھاکہ کی جہانگیر نگر یونیورسٹی کے ماہر بشریات سعید فردوس نے کہا کہ ’جب تک یہ زخم کھلا رہے گا، تعلقات پائیدار نہیں ہو سکتے۔‘
دیگر ماہرین زیادہ متوازن انداز اختیار کرتے ہیں۔
بنگلہ دیشی ماہر تعلیم میگھنا گہا ٹھاکرتا نے کہا کہ ’متاثرہ فریق کے نقطہ نظر سے، میں پاکستان کی جانب سے کچھ شرائط پوری کیے بغیر دو طرفہ تعلقات میں گرمجوشی کو قبول نہیں کر سکتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو ’جنگ سے متعلق تمام معلومات عوام کے سامنے لانی چاہییں۔‘
تاہم ڈھاکہ یونیورسٹی کی ریٹائرڈ پروفیسر برائے بین الاقوامی تعلقات نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنا ’فطری‘ ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں ’جغرافیائی و سیاسی سمتوں‘ کو بھی تسلیم کیا۔
بنگلہ دیش میں فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد جب محمد یونس کی حکومت اقتدار منتقل کرے گی تو تعلقات ایک بار پھر بدل سکتے ہیں۔
مائیکل کوگل مین نے کہا کہ ’اگر اگلی حکومت انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے تیار ہوئی اور دہلی نے بھی جواب میں آمادگی ظاہر کی تو اسلام آباد کے ساتھ تعلقات میں اضافہ متاثر ہو سکتا ہے۔‘