بنگلہ دیش میں حکومت تبدیلی کا ایک سال، پاکستان سے قربتیں بڑھیں: مبصرین

ڈھاکہ میں حکومت کی تبدیلی سے قبل پاکستان بنگلہ دیش کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ لیکن تبدیلیِ اقتدار کے بعد بنگلہ دیش کی کئی اہم شخصیات پاکستان کے دورے کر چکی ہیں۔

پاکستان کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف 19 دسمبر 2024 کو قاہرہ میں D-8 سربراہی اجلاس کے موقع پر ایک دو طرفہ ملاقات کے دوران بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس سے مصافحہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ٹھیک ایک سال قبل پانچ اگست 2024 کو ایک طویل عوامی احتجاجی تحریک کے بعد شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا، جس کے بعد ایک عبوری حکومت آج تک وہاں قائم ہے۔

اس تبدیلی سے قبل پاکستان بنگلہ دیش کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ حسینہ واجد کی انتظامیہ انڈیا نواز سمجھی جاتی تھی لیکن مصبرین کا ماننا ہے کہ حکومت تبدیلی کے بعد ڈھاکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی بڑھی ہے۔ نہ صرف بنگلہ دیش کی کئی اہم شخصیات پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں بلکہ پاکستانی وزیرِ داخلہ محسن نقوی بھی وہاں کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ دونوں ممالک کی عسکری قیادت کے بھی رابطے ہوئے ہیں۔

سفارتی اموار کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی شوکت پراچہ نے بتایا کہ تبدیلی سے قبل ’پاکستانیوں کے لیے بنگلہ دیش کے ویزے بند تھے اب آسانی سے مل رہے ہیں۔ اس سے قبل ایسے عوامی رابطے نہیں تھے جو اب بنے ہیں۔ کبھی بنگلہ دیش انڈیا کی پراکسی ہوا کرتا تھا اور اب اس خطے میں چین، پاکستان اور بنگلہ دیش ایک نیا گروپ بننے جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس ایک سال میں چار اہم شعبوں میں تعلقات بڑھے ہیں۔ دفاع، تجارت، تعلیمی اور سفارتی رابطے قائم ہوئے ہیں۔ پچھلی حکومت کا اس ایک سال سے بالکل کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ 1971 سے 2024 تک تو تعلق تھا ہی نہیں، اس ایک سال میں درحقیقت بنگلہ دیش اور پاکستان کے برادرانہ تعلق کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

’تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے بحری جہاز پہلی بار براہ راست چٹا گانگ جا رہے ہیں۔ یہ ایک تجاری راستہ کھلا ہے۔ سرکاری اور نجی سطح پر تجارتی معائدے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کی ہر تقریب میں پاکستان کے خلاف تقاریر ہوتیں تھیں لیکن اب پاکستان کے حق میں باتیں ہوتی ہیں۔‘

جاری رابطے

بنگلہ دیشی اخبار ڈھاکہ ٹربیون کے مطابق پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار 23 اگست کو ڈھاکہ جائیں گے وہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔ وہ اگلہ روز کو اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب، مشیر خارجہ محمد توحید حسین سے ملاقات کریں گے۔

اپریل میں ان کا بنگلہ دیش کا طے شدہ دورہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ محمد جاشم الدین نے وزارت خارجہ میں نامہ نگاروں کو بتایا، "ہمارے تعلقات کی مضبوط بنیاد رکھنے کے لیے ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستانی سیکریٹری خارجہ کے وفد نے تاہم اپریل میں ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ سیکرٹری خارجہ کے دورے کے بعد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اپریل کے آخری ہفتے میں بنگلہ دیش کا دورہ کرنا تھا لیکن انڈیا کی جانب سے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان پر الزام تراشی اور جنگ کا طبل بجنے کے باعث یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا تھا۔

رابطوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین خان سے سوموار کو ملاقات کی جس میں تجارت، توانائی، لاجسٹکس اور صنعتی روابط کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

بات چیت میں بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی صنعتی ضروریات، خاص طور پر پاکستانی کوئلے اور چونے کے پتھر کی پیداوار اور سوڈا ایش کی پیداوار میں مدد پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اسلام آباد میں جاری ایک سرکاری بیان کے مطابق تبادلہ خیال کے اہم نکات میں زرعی تجارت کو فروغ دینا، خاص طور پر پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش سے انناس کی درآمد اور آم کی ممکنہ برآمدات شامل ہیں، جو حتمی تکنیکی منظوری تک زیر التوا ہیں۔

ملاقات میں ٹیکسٹائل کے مواقع، معدنیات کی برآمدات جیسے سندھ سے اعلیٰ معیار کے چونا پتھر اور حلال سرٹیفائیڈ گوشت کی مصنوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں فریقین نے لاجسٹک چیلنجز سے نمٹنے اور کاروباری ویزا کے عمل کو ہموار بنانے کے عزم کا اظہار کیا تاکہ تجارتی تبادلوں کو آسان بنایا جاسکے۔

وفاقی وزیر جام کمال نے دونوں ممالک کے درمیان توانائی، لاجسٹکس اور فوڈ سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک تبدیلی لانے والی اقتصادی شراکت داری کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا۔

 

وزیر داخلہ محسن نقوی نے بنگلہ دیش دورے کے دوران بنگلہ دیش کے مشیر برائے امور نوجوانان اور کھیل آصف محمود سے ملاقات کی تھی۔ بنگلہ دیشی مشیر کھیل آصف محمود نے نادرا کے نظام میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ محسن نقوی نے بنگلہ دیش کے وفد کو نادرا کے دورے کی دعوت دی تھی۔ توقع ہے کہ بنگلہ دیشی وفد جلد پاکستان آئے گا اور نادرا کا دورہ کرے گا۔

اس دوران پاکستان اور بنگلہ دیش نے ستمبر 2025 میں سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے ویزا فری داخلہ کی اجازت دینے پر اصولی اتفاق بھی کیا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کی ایک بڑی علامت ہے۔

’پراکسی‘ سے برادر ملک تک کا سفر

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنگلہ دیش کے صحافی و تجزیہ کار ثقلین رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہیں، دونوں حکومتیں اب تعلقات کو بہتر بنانے کے طریقوں پر غور کر رہی ہیں۔ جنوبی ایشیا کی سیاست کے موجودہ تناظر میں یہ تعلق دن بدن اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

’دوسری جانب حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ تعلقات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ انڈیا کے دائیں بازو کے میڈیا آؤٹ لیٹس بھی جارحانہ انداز میں بنگلہ دیش کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں جس سے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’دونوں اطراف کے حکام کئی دہائیوں کے بعد ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف بیان بازی میں عوامی لیگ کے دور کے مقابلے میں نمایاں کمی آئی ہے۔ زیادہ تر موجودہ سیاسی جماعتوں نے طویل عرصے سے بھارت مخالف سیاست کی ایک شکل اختیار کی ہے۔

’ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کے پیش نظر، یہ فطری بات ہے کہ کچھ بنگلہ دیشی جماعتیں اب پاکستان اور چین کی طرف کچھ زیادہ جھکاؤ رکھ رہی ہیں۔ مختصر یہ کہ 15 سال بعد بنگلہ دیش کے پاس اب اپنی سفارت کاری کو دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ہے۔ اگرچہ یہ عمل آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ خارجہ تعلقات کو نئی شکل دینے کا ارادہ زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔‘

بنگلہ دیشی وائس چانسلرز نے بھی 24 سے 27 اپریل 2025 کے درمیان پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں بنگلہ دیش کے مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز شامل تھے، جن میں ڈاکٹر محمد کامل (یونیورسٹی آف ڈھاکہ)، ڈاکٹر محی الدین احمد (جے کے یونیورسٹی)، ڈاکٹر سمیع الحق (بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی)، ڈاکٹر عظیم الحق (یونیورسٹی آف راجشاہی) اور ڈاکٹر فاطمہ ناز (یونیورسٹی آف چٹگاؤں) شامل تھیں۔

صنوبر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر قمر چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے 50 سالوں سے حسینہ واجد کی جماعت نے پاکستان کے ساتھ مشکل حالات بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ اب ملٹری ٹو ملٹری ملاقاتوں کے بعد یہ تعلق اگلے مرحلے پر جا چکا ہے۔ سارک کا نعم البدل بن سکتا ہے کیونکہ پاکستان چین اور بنگلہ دیش کی مثلث بننے جا رہی ہے۔ اب عوام کے مابین بھی برف پگھل چکی ہے رویے دوستانہ ہو گئے ہیں پاکستانی گلوکاروں نے بنگلہ دیش میں جا کر کنسرٹس بھی کیے ہیں۔‘

سابق پاکستانی سفیر عاقل ندیم نے کہا کہ ’حسینہ واجد اور موجود عبوری حکومت، دونوں حکومتوں کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک سفیر بنگلہ دیش سے واپس آئے، اور نئے سفیر کی تعیناتی ہوئی تو ان کا اگریما بنگلہ دیش حکومت سے منظور ہونے میں چھ ماہ لگ گئے تھے۔ پہلی جیسی بدگمانیوں میں بھی کمی ہے۔

’بنگلہ دیش کی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی وجہ سے انڈیا بھی اب بنگلہ دیش سے ناراض لگتا ہے۔‘

 

پاکستانی وفود کی بنگلہ دیش سے ملاقاتیں:

پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی گذشتہ برس اکتوبر میں بنگلہ دیش کے مشیر خارجہ محمد توحید حسین سے کامن ویلتھ سربراہان حکومت کے اجلاس کے موقعے پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں حکومت تبدیلی کو دو ماہ ہوچکے تھے۔

اس کے بعد رواں برس مارچ میں جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس کی سائیڈ لائنز پر پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ کی بنگلہ دیش کے مشیر خارجہ محمد توحید حسین سے ملاقات میں پاکستان کی طرف سے تجارت اور دونوں ممالک کی عوام کے مابین رابطوں کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

دونوں وزرا نے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار اور باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔

دو طرفہ تعاون کو بڑھانے کے لیے سرکاری سطح پر 15 برسوں بعد سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کی سربراہی میں وفد رواں برس اپریل میں بنگلہ دیش پہنچا۔ اس دوران دوطرفہ مشاورتی اجلاس میں باہمی دلچسبی کے مختلف شعبوں میں تعاون پر بات چیت کی گئی۔ بنگلہ دیش دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق مذاکرات میں سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے پاکستان کی کی جبکہ سیکریٹری خارجہ جاشم الدین بنگلہ دیش کی نمائندگی کی۔

اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش حکومت کے عبوری چیف ایڈوائزر محمد یونس کی بھی دو بار ملاقات ہو چکی ہے۔ پہلی ملاقات گذشتہ برس ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اور بعد ازاں دسمبر میں قاہرہ میں D-8 سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔

بنگلہ دیش کے پاکستان سے دفاعی رابطے:

کئی دہائیوں بعد بنگلہ دیش کا پاکستان سے ایک نیا دفاعی رابطہ قائم ہوا۔ رواں برس جنوری میں بنگلہ دیش کی مسلح افواج ڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن نے ایک وفد کے ہمراہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے راولپنڈی جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری بیان کے مطابق ’ملاقات کے دوران، دونوں سربراہان نے خطے میں ابھرتی ہوئی سلامتی کی صورت حال پر وسیع تبادلہ خیال کیا اور دوطرفہ فوجی تعاون کو بڑھانے کے لیے غور کیا۔ دونوں اطراف کے فوجی رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات کی اہمیت سمجھتے  ہوئے اس بات پر زور دیا کہ برادر ممالک کے درمیان پائیدار شراکت داری کو بیرونی اثرات کے خلاف مظبوط رہنا ہو گا۔‘

دفاعی معاملات میں مشترکہ مشقوں اور ممکنہ طور پر JF-17 تھنڈر جیٹ کی خریداری پر بات چیت شامل ہے۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ’آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جنوبی ایشیا اور وسیع تر خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے  مشترکہ کوششوں کی اہمیت کا اعادہ کیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہا  کہ ’دونوں ممالک باہمی تعاون پر مبنی دفاعی اقدامات کے ذریعے علاقائی سلامتی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔‘

پاکستان بنگلہ دیش تعلقات تجارتی رابطے:

گذشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش پاکستان کا تجارتی ربط کئی دہائیوں بعد اس وقت بحال ہوا جب کراچی سے روانہ ہونے والا پاکستان کا مال بردار جہاز 15 نومبر کو بنگلہ دیش چٹا گانگ بندرگاہ پہنچا۔ اس موقع پر بنگلہ دیش میں تعینات پاکستان ہائی کمیشن حکام نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ نئی راہداری سپلائی چین کے لیے موثر ثابت ہو گی اس سے وقت بچے گا اور دونوں ملکوں کے لیے نئے کاروباری مواقع پیدا ہوں گے۔‘

یہ جہاز دس دن میں بنگلہ دیش پہنچا تھا۔ جبکہ اس سے قبل محدود تجارت براستہ سری لنکا یا دبئی ہو رہی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان سال 2018 سے فضائی رابطے بھی منقطع ہیں۔

دوسری جانب 12 برسوں بعد 35 رکنی پاکستان کے تجارتی وفد نے رواں برس 13 جنوری کو بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس میں مختلف شعبوں میں تجارتی معاہدے کیے گئے۔

دونوں ممالک کی قیادت سمجھتی ہے کہ تعلقات میں بہتری کا یہ اہم موقع ہے۔ لیکن اس کا انحصار بنگلہ دیش میں آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر بھی ہوگا۔ اس میں بنگلہ دیشی عوام کس جماعت کو حکومت دیتی ہے اور اس جماعت کے پاکستان کی جانب پالیسی کیا ہوگی یہ دلچسپ پہلو رہے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا