بنگلہ دیش میں استغاثہ نے معزول وزیرِاعظم شیخ حسینہ پر باضابطہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کر دیے ہیں جو گذشتہ سال کی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر اموات میں ملوث ہونے سے متعلق ہیں۔
شیخ حسینہ اس وقت ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر انڈیا فرار ہو گئیں جب طلبہ کی قیادت میں شروع ہونے والا احتجاج ان کے جنوبی ایشیائی ملک میں 15 سالہ آمرانہ اقتدار کے خلاف عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گیا۔
اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق گذشتہ سال جولائی اور اگست کے درمیان مون سون مظاہروں کے دوران تقریباً 1400 افراد کی جان گئی جب شیخ حسینہ کی عوامی لیگ حکومت نے ڈھاکا میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔
بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) کے علم میں آیا کہ شیخ حسینہ نے ریاستی سکیورٹی فورسز، اپنی جماعت اور اس سے منسلک گروپوں کو کارروائیاں انجام دینے کا ’براہِ راست حکم‘ دیا، جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
آئی سی ٹی کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے عدالت کو بتایا کہ ’شواہد کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ منظم، وسیع پیمانے پر اور باقاعدہ حملہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ملزمہ نے بغاوت کو کچلنے کے لیے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اپنی جماعت کے مسلح کارکنوں کو کھلی چھٹی دی۔‘
تاج الاسلام نے شیخ حسینہ اور دو دیگر عہدے داروں کے خلاف الزامات عائد کیے جس کے بعد ان پر اتوار کو باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی گئی۔ ان پر ’جولائی کی بغاوت‘ کے دوران ’قتل عام کی روک تھام میں ناکامی، سازش، معاونت، اشتعال انگیزی، شراکت اور سہولت کاری‘ جیسے الزامات لگائے گئے۔
استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا کہ شیخ حسینہ، بطور اس وقت کی حکومت کی سربراہ، بدامنی کے دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی ذمہ دار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال اکتوبر میں آئی سی ٹی نے سابق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے 45 وزرا، مشیروں، فوجی اور سول اہلکاروں کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ شیخ حسینہ اب بھی نئی دہلی میں دارالحکومت کے اقتدار کے مراکز کے قریب مقیم ہیں اور حوالگی کی کوشش سے بچ رہی ہیں۔
بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والا اقتدار کا خلا نگران حکومت نے تیزی سے بھر دیا جس کی قیادت شیخ حسینہ کے دیرینہ ناقد اور نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے سنبھال لی جو عبوری رہنما بننے کے لیے ملک واپس آئے۔ مظاہروں کو تقریباً ایک سال گزر چکا ہے اور بنگلہ دیشی عوام اب بھی اپنے نئے رہنما کے انتخاب کے لیے عام انتخابات کے منتظر ہیں۔
تاہم ایک متنازع اقدام کے تحت بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نے اس ماہ عوامی لیگ کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جس کے نتیجے میں وہ آئندہ قومی انتخابات میں حصہ لینے سے محروم ہو گئی۔ یہ انتخابات اگلے سال جون تک متوقع ہیں۔
نگران حکومت نے اعلان کیا کہ اس نے تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں ’کسی بھی قسم کی اشاعت، میڈیا، آن لائن اور سوشل میڈیا‘ کے ساتھ ساتھ ’کسی بھی قسم کی مہم، جلوس، اجتماع، جلسہ یا کانفرنس‘ شامل ہے۔ یہ پابندی اس وقت عائد رہے گی جب تک رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات مکمل نہیں ہو جاتے۔‘
© The Independent