بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کا جماعت اسلامی کو بحال کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کی رجسٹریشن کی منسوخی کو کالعدم قرار دے دیا، جس سے اسے الیکشن کمیشن میں باضابطہ طور پر سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر ہونے کی اجازت مل گئی ہے۔

بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف مقدمے کے آغاز کے بعد 1 جون 2025 کو ڈھاکہ میں آئی سی ٹی عدالت کے باہر ایک پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔ بنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کی رجسٹریشن بحال کرنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد وہ انتخابات میں حصہ لے سکے گی (تصویر منیر الزماں / اے ایف پی)

بنگلہ دیش نے اتوار کو ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت کی رجسٹریشن بحال کر دی جس سے وہ انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہو گئی ہے۔

یہ رجسٹریشن ایک دہائی سے زائد عرصے قبل اس وقت کی حکومت کے تحت منسوخ کی گئی تھی، جو اب معزول ہو چکی ہے۔

سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کی رجسٹریشن کی منسوخی کو کالعدم قرار دے دیا، جس سے اسے الیکشن کمیشن میں باضابطہ طور پر سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر ہونے کی اجازت مل گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل توحید الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس جماعت کی رجسٹریشن قانون کے مطابق نمٹائے۔‘

جماعت اسلامی کے وکیل، شیشیر منیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلم اکثریتی ملک میں جس کی آبادی 17 کروڑ ہے ’جمہوری، شمولیتی اور کثیر الجماعتی نظام‘ کو فروغ ملے گا۔

شیشیر منیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ بنگلہ دیشی عوام، چاہے ان کی نسلی یا مذہبی شناخت کچھ بھی ہو، جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے، اور پارلیمنٹ تعمیری مباحثے سے بھرپور ہو گی۔‘

جب اگست میں شیخ حسینہ کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا تو جماعت اسلامی نے 2013 کے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کی تھی، جس میں جماعت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اتوار کا یہ فیصلہ اس کے بعد سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ نے 27 مئی کو جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما، اے ٹی ایم اظہرالاسلام کے خلاف سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

اظہرالاسلام کو 2014 میں پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی کی 1971 کی جنگ کے دوران عصمت دری، قتل اور نسل کشی کے الزامات میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جماعت اسلامی نے اس جنگ کے دوران اسلام آباد (پاکستان) کا ساتھ دیا تھا، جو آج بھی بہت سے بنگلہ دیشیوں کے لیے غصے کا باعث ہے۔

یہ جماعت شیخ حسینہ کے والد، شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کی حریف تھی، جو بنگلہ دیش کے بانی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

حسینہ نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا۔

مئی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے عوامی لیگ پر پابندی عائد کی تھی جو ایک مقدمے کے فیصلے تک برقرار رہے گی۔

یہ مقدمہ عوامی لیگ کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کو کچلنے کے اقدام سے متعلق ہے، جس کے نتیجے میں حسینہ کو گذشتہ سال معزول کر دیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی کا پس منظر

تاریخی سیاق و سباق

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی جڑیں پاکستان کی جماعت اسلامی سے جڑی ہوئی تھیں۔

1971 میں جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) نے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک شروع کی، تو جماعت اسلامی نے اس تحریک کی مخالفت کی اور پاکستان کا ساتھ دیا۔

اس دوران جماعت اسلامی کے کچھ رہنماؤں اور کارکنوں پر البدر اور الشمس جیسے مسلح گروہوں کے ذریعے قتل، عصمت دری اور نسل کشی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات لگے۔

بہت سے بنگلہ دیشی آج بھی جماعت کو 1971 کے جنگی جرائم کے حوالے سے غدار تصور کرتے ہیں۔

2010 میں جنگی جرائم کا ٹرائل اور سیاسی تناؤ

وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل (آئی سی ٹی) قائم کیا تاکہ 1971 کے جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلائے جا سکیں۔

اس ٹریبیونل کے تحت جماعت اسلامی کے کئی سینیئر رہنماؤں کو سزائے موت یا عمر قید دی گئی، جن میں عبدالقادر ملا، مطیع الرحمٰن نظامی، علی احسن محمد مجاہد، صلاح الدین قادر چوہدری شامل ہیں۔

جماعت اسلامی اور بین الاقوامی ادارے اس ٹریبیونل پر شفافیت، جانبداری اور سیاسی انتقام کے الزامات لگاتے رہے۔

2013  میں رجسٹریشن کی منسوخی

2013 میں ڈھاکہ ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کی الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹریشن کو کالعدم قرار دیا۔

عدالت کا مؤقف تھا کہ جماعت اسلامی کا منشور آئین اور سیکولرزم سے متصادم ہے، کیونکہ اس کا مقصد ’اسلامی ریاست کا قیام‘ تھا، جو بنگلہ دیش کے سیکولر آئین سے متصادم ہے۔

اس فیصلے کے بعد جماعت کو قومی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا، حالانکہ وہ کئی دہائیوں سے ایک مؤثر پارلیمانی جماعت رہی تھی۔

سیاسی دباؤ اور کریک ڈاؤن

شیخ حسینہ کی حکومت نے جماعت اسلامی پر شدید کریک ڈاؤن کیا، جس میں:

  1. اس کی قیادت کو گرفتار یا پھانسی دی گئی۔
  2. دفاتر بند کیے گئے۔
  3. مظاہروں پر سختی سے پابندی عائد کی گئی۔

حکومت کا مؤقف تھا کہ یہ اقدامات جنگی جرائم کی سزا اور سیکولر نظام کے تحفظ کے لیے ہیں، جبکہ ناقدین اسے سیاسی انتقام اور اپوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا