بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما کی سزائے موت کالعدم قرار

بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے جماعت اسلامی کے اہم رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو 2014 میں سنائی گئی موت کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

30 دسمبر 2014 کو ڈھاکہ کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے رہنما اظہر الاسلام کو وین میں لے جانے کے مناظر (اے ایف پی)

بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے جماعت اسلامی کے اہم رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو 2014 میں سنائی گئی موت کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے منگل کو اپنے فیصلے میں اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات سے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا۔

انہیں گذشہ برس ختم ہونے والی حکومت کے دور میں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور ان کی سزائے پر عمل درآمد ابھی ہونا تھا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اظہر الاسلام 2012 سے قید میں تھے۔

اظہر الاسلام جو 1952 میں پیدا ہوئے، ان چھ بڑے سیاسی رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں شیخ حسینہ کے دور حکومت میں موت کی سزا سنائی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیخ حسینہ کی  15 سالہ وزارتِ عظمیٰ کا دور اگست 2024 میں اُس وقت ختم ہوا جب ملک میں طلبہ تحریک نے انہیں منصب چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

اظہر الاسلام کے وکیل ششیر منیر نے کہا کہ وہ ’خوش قسمت‘ ہیں، کیوں کہ دیگر پانچ سینیئر سیاسی رہنماؤں جن میں چار جماعت اسلامی سے اور ایک بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) سے تعلق رکھتے تھے، کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔

اظہر الاسلام کے وکیل نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ’انہیں انصاف اس لیے ملا کیوںکہ وہ زندہ تھے۔

اپیلیٹ ڈویژن انسانیت کے خلاف جرائم کے دیگر مقدمات میں شواہد کا جائزہ لینے میں ناکام رہا۔‘

اظہر الاسلام کو 1971 میں پاکستان سے الگ ہونے کے دوران ہونے والی جنگ کے دوران ریپ، قتل اور نسل کشی کے الزامات میں 2014 سزائے موت سنائی گئی۔

جماعت اسلامی نے جنگ کے دوران پاکستان کی حمایت کی اور اس کے اس کردار پر آج بھی بہت سے بنگلہ دیشیوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔

جماعت اسلامی، شیخ حسینہ کے والد، عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمٰن  جو بعد میں بنگلہ دیش کے بانی کے طور پر جانے گئے، کی سیاسی حریف تھی۔

شیخ حسینہ نے اپنی حکومت کے دوران جماعت اسلامی پر پابندی لگائی اور اس کی قیادت کے خلاف سخت کارروائی کی۔

اظہر الاسلام نے 2015 میں سزا کے خلاف اپیل کی، لیکن اعلٰی عدالت نے 2019 میں فیصلے کو برقرار رکھا۔ انہوں نے 2020 میں نظرثانی کی درخواست دائر کی۔

77 سالہ شیخ حسینہ گذشتہ سال اُس وقت انڈیا چھوڑ کر چلی گئیں جب ہجوم نے ان کے محل پر دھاوا بول دیا۔ وہ تاحال خود ساختہ جلاوطنی میں انڈیا میں موجود ہیں جب کہ خود ان کی عوامی لیگ پارٹی پر بھی اب پابندی لگ چکی ہے۔

حسینہ واجد کے جانے کے بعد اظہر الاسلام نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دوبارہ دائر کی، جو 27 فروری کو جمع کروائی گئی۔

منگل کو چیف جسٹس سید رفعت احمد کی سربراہی میں مکمل بینچ نے انہیں بری کر دیا۔

اپنے رہنما کی رہائی پر جماعت اسلامی کے حامیوں نے جشن منایا۔

جماعت کے رہنما شفیق الرحمٰن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جماعت ان رہنماؤں کو بھی یاد کر رہی ہے جنہیں پھانسی دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ عدالتی قتل کا نشانہ بنے۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ملک کو درست سمت میں لے جا سکتے تھے۔ قوم ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا