عالمی طاقتوں کے درمیان عظمت کی دوڑ

دنیا میں کئی ممالک کے درمیان عظیم اور عظیم تر بننے کی لڑائی جاری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کشمکش سے انسانیت کو کوئی فائدہ ہو گا؟

سپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز، سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان، برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر سٹارمر، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے اور نیدر لینڈز کے وزیر اعظم ڈک شوف 25 جون، 2025 کو دی ہیگ میں شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم (نیٹو) کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے اجلاس کے ایک عمومی سیشن میں شریک ہیں (اے ایف پی)

دنیا میں کئی ممالک کے درمیان عظیم اور عظیم تر بننے کی لڑائی جاری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کشمکش سے انسانیت کو کوئی فائدہ ہو گا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنائیں گے، یورپ نے بھی اپنے براعظم کو عظیم بنانے کا قصد کر لیا ہے۔

فرانسیسی صدر میکروں نے اپنے حالیہ دورہ برطانیہ میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ یورپ کو عظیم تر بنا کر ایک بار پھر دنیا میں اس کی اہمیت کو اجاگر کریں گے اور یہ کہ ان کے خطے کو چین یا امریکہ پہ انحصار نہیں کرنا چاہیے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ عظمت کے دعوے تو آسان ہیں لیکن کیا عملی طور پر ایسا ممکن ہے؟

مثال کے طور پر جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے تو ان کے خیال میں وہ امریکہ ابھر رہا ہوتا ہے جس کی طاقت کی بنیاد وہاں کا مینوفیکچرنگ سیکٹر تھا اور اس کی وجہ سے امریکہ کے فائنانشل سیکٹر کو بھی استحکام حاصل ہوا اور 1945 تک امریکہ دنیا کے مجموعی جی ڈی پی میں ایک بڑا حصہ دار تھا۔

تاہم اسے یہ مضبوطی اس لیے ملی تھی کیونکہ دو جنگوں میں یورپ کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

 کچھ اندازوں کے مطابق جنگ کی وجہ سے یورپی معیشت کی سکڑنے کی شرح دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباً 18 فیصد تھی، جس سے امریکی معیشت کو فائدہ ہوا اور اس نے یورپ کو دھڑا دھڑ اپنی مصنوعات بیچیں۔

اس کے علاوہ 50 اور 60 کی دہائی میں دنیا کے کئی ممالک کو نو آبادتی ممالک سے آزادی بھی نصیب ہوئی، جنہیں مالی امداد کی ضرورت تھی جو امریکہ کے علاوہ کوئی اور ملک فراہم نہیں کر سکتا تھا۔

اس کے علاوہ امریکہ تائیوان، جنوبی کوریا اور جاپان جیسی معیشتوں کو سنبھالنے کے لیے بھی مالی مدد کر رہا تھا، جس کے خود امریکہ کو بھی معاشی فوائد ہوئے۔ 

اس سارے عمل میں امریکہ نے یورپ کی صنعتوں کو کوئلے سے تیل پر منتقل کر دیا اور تیل بیچنے والی کئی بڑی کمپنیاں امریکی تھیں۔

تو گویا امریکہ کے پاس ایک طرف یورپ کی مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ تھا جبکہ دوسری طرف اس نے نو آزاد ریاستوں کو بھی مالی امداد دی۔

پاکستان میں ڈیم اور دوسرے کئی بڑے منصوبوں کو مالی مدد امریکہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے ملی۔  

چونکہ امریکہ بڑے پیمانے پر پیداوار کر سکتا تھا، اس لیے اس کے مینوفیکچرنگ سیکٹر نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہر ملک اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے اور اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر کا احیا چاہتا ہے، جو ٹیرف کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ ایسے میں کیا امریکہ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کر سکتا ہے؟

بڑی بڑی امریکی کمپنیاں بھی اس لیے پیسہ بنا رہی ہیں کیونکہ وہ بڑے پیمانے پہ چین، انڈیا، ویتنام اور دوسرے ممالک میں مینوفیکچرنگ کر رہی ہیں، جہاں لیبر سستی ہے اور ٹیکسیز بھی کم ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں ان کمپنیوں کو ٹیکس کی چھوٹ دی تھی، پھر بھی وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے۔ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بار پھر مراعات دے کر وہ کمپنیوں کو کیسے قائل کر سکتے ہیں؟

چین میں یہ کمپنیاں ایک ارب سے زیادہ انسانوں کے لیے پیداوار کر سکتی ہیں اور وہاں سے اشیا کو انڈیا یا دوسرے ممالک بھیجنا بھی ان کے آسان ہے۔ 

تو ایک ارب سے زیادہ کی مارکیٹ چھوڑ 34 کروڑ 10 لاکھ کی امریکی مارکیٹ میں وہ کیوں آئیں گی؟

چین، انڈیا، بنگلہ دیش، ویت نام اور دوسرے کئی ممالک میں لیبر انتہائی سستی ہے جب کہ یونیز کی ہڑتالوں کا بھی اتنا خطرہ نہیں۔ 

تو وہ ایسے میں امریکہ کی مہنگی لیبر کے لیے اپنی مینوفیکچرنگ امریکہ میں کیوں منتقل کریں گے؟

امریکہ کے بعد یورپ بھی اپنی عظمت کی بنیاد مینوفیکچرنگ کے احیا پہ کرنا چاہتا ہے۔ برطانیہ سمیت یورپ میں کئی ایسے سیاست دان ہیں، جو ان صنعتوں کو کھولنے کی بات کر رہے ہیں جو ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے بند کر دی گئیں تھیں۔

سوال پھر وہی ہے کہ کیا یورپ چین کی طرح بڑے پیمانے کی پیداوار کر سکتا ہے؟ ماضی میں نو آبادتی ممالک نے 50 فیصد سے زیادہ دنیا پر قبضہ کیا ہوا تھا۔

1945 تک پچاسی فیصد دنیا نوآبادتی ممالک کے کنٹرول میں تھی، جہاں کی پیداوار اور خام مال پر یورپی ممالک کا قبضہ تھا اور وہ بڑے پیمانے پر پیداوار کر سکتے تھے۔ اب یہ پیداوار اس قبضے کے بغیر کیسے ہوگی؟

چین دنیا میں 105 ارب ٹن سٹیل کا آدھے سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ دنیا کے آدھے برقی آلات بناتا ہے۔ اس کی وجہ اس کی اپنی ایک ارب 40 کروڑ سے زیادہ کی آبادی ہے۔ 

کیا یورپ ایسا کر سکتا ہے، جب کہ پورے یورپ کی آبادی 744.4 ملین ہے اور جہاں جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے مضبوط مینوفیکچرنگ کرنے والے ممالک پہلے ہی ہیں اور ہر ملک اپنی معیشت کو مقابلے سے بھی بچانا چاہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس عالمی منظر نامے پر روس بھی خود کو عظیم ثابت کرنے پہ تلا ہوا ہے۔

تاہم یوکرین کی جنگ نے جہاں اس کی تیل اور گیس کی برآمد کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں اس کے اخراجات اور جانی و مالی نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔

حالانکہ چین نے کسی عظمت کا دعوی نہیں کیا اور اس کا اصرار ہے کہ وہ بقائے باہمی کے تحت ترقی کرنا چاہتا ہے اور دنیا میں کسی بھی ایک ملک کی اجارہ داری کا قائل نہیں۔ 

لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ عالمی منظر نامے پر صرف چین وہ واحد ملک ہے جو عسکری، معاشی اور سیاسی عظمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

جارج فریڈمین نے کہا تھا کہ دنیا میں ایک عالمی طاقت کے بعد دوسری عالمی طاقت ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی بھی لڑائی کے بغیر نہیں آئی۔ تو کیا چین کی عظمت کا طرف سفر خطرناک ہو سکتا ہے؟

چین کی یہ رفتار یورپ کو پسند نہیں۔ اسی لیے نیٹو ممالک نے اپنے جی ڈی پی کا پانچ فیصد دفاع پہ خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے بظاہر لگتا ہے کہ مغربی اقوام چین سے معاشی میدان میں نہیں بلکہ عسکری میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ 

امریکہ کے پہلے ہی دنیا کے 150 ممالک میں 800 سے زیادہ فوجی اڈے ہیں۔ اس نے ساؤتھ چائنا سی اور دوسرے مقامات پر چین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

ایسے میں عظمت کی لڑائی کے نعرے دنیا کی آٹھ کروڑ آبادی کے لیے تباہی کا نسخہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ