کیا بڑھتی ہوئی غربت میں کمی ممکن ہے؟

اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم، صاف پانی اور علاج معالجے کی سہولتوں پر بھرپور توجہ دیں تو ایک عام آدمی اپنے ماہانہ اخراجات سے مناسب رقم بچا سکتا ہے۔

17 فروری، 2019 کو لاہور میں ایک کچرا چننے والی خاتون سڑک کنارے سیب کھا رہی ہے (اے ایف پی)

دنیا کے کئی ممالک نے معاشی ترقی کا راستہ اپناتے ہوئے اپنی جغرافیائی حدود میں غربت کی شرح میں کافی حد تک کمی کی ہے۔

چین نے گذشتہ چند دہائیوں میں انتہائی غربت کو مکمل طور پر ختم کر دیا جبکہ عام شہری کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔

انڈیا کی مودی سرکار پر مذہبی منافرت بڑھانے، حزب اختلاف کو کچلنے، آزادی اظہار رائے کو دبانے اور مخالفین کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرنے کے الزامات اپنی جگہ لیکن وہاں بھی کثیرالطرفہ غربت میں کمی ہوئی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ معاشی ترقی میں جمود غربت میں اضافے کی کئی وجوہات میں سے ایک ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اگر معاشی شرح نمو میں ایک فیصد کمی ہو جائے تو وہ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو غربت میں دھکیل سکتی ہے۔

اس کے علاوہ قدرتی آفات بھی شرح غربت میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں جیسے کہ پاکستان میں 2022 کے سیلابوں کے بعد نوے لاکھ سے زیادہ افراد مزید غربت کی دلدل میں پھنس گئے۔

ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ افراد مزید غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی کی نمو 1.8 فیصد رہے گی جب کہ مہنگائی 26 فیصد ہے۔

یہ دونوں عوامل بھی اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی ساڑھے نو کروڑ لوگ غربت میں رہ رہے تھے اوراس اضافے کے بعد یہ تعداد تقریباً ساڑھے 10 کروڑ کے قریب ہو جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت حال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں غربت میں کمی کے لیے کچھ کر سکتی ہیں؟

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ قرضوں کی ادائیگی، دفاعی بجٹ اور آئی پی پیز کے واجبات کے بعد حکومت کے پاس بہت کم پیسہ بچتا ہے کہ وہ عوامی خدمت یا غربت کو کم کرنے کے لیے کوئی منصوبہ شروع کرے۔

تاہم سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر بھرپور توجہ دے، تو اس غربت کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان حکومتوں کے پاس دو ہزار ارب روپے سے زیادہ کا بجٹ وفاقی اور صوبائی سوشل سیکٹر ڈیولیپمنٹ پروگرامز کے لیے ہوتا ہے، جو زیادہ تر سٹرکوں، انڈرپاسیز، موٹرویز اور اسی طرح کے منصوبوں میں لگا دیا جاتا ہے۔

اگر اس بجٹ کا رخ ان تین مسائل کو حل کرنے پر لگایا جائے تو غربت کو کسی حد تک کم کرنا ممکن ہے۔

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ گذشتہ کچھ دہائیوں میں ایک عام آدمی کا تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی پہ خرچہ بڑھ گیا ہے۔ متوسط طبقے سے لے کر نچلے طبقات تک عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھاتی ہے۔

علاج کے لیے نجی ہسپتالوں میں جاتی ہے جب کہ پینے کے لیے پانی خرید کر پیتی ہے۔ پاکستان میں دو کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ان کے باہر رہنے کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ غربت ہے۔

دیہاتوں میں یہ بچے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ فصلوں کی کٹائی کے وقت انہیں سکول سے چھٹی لینی پڑتی ہے جو بالاخر سکول چھوڑنے پر منتہج ہوتی ہے۔

شہروں میں بچے ورکشاپس، چھوٹی دکانوں اور ہوٹلوں پر کام کرتے ہیں اور انہیں تعلیم کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی کا پانی کا خرچہ ایک ہزار روپے سے لے کر تین ہزار روپے تک ہے اور یہ بھی اس صورت میں جب وہ انتہائی غیر معیاری پانی خرید رہا ہو۔

بالکل اسی طرح آج کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب افراد بھی گلی محلے کے نام نہاد انگلش میڈیم سکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں اور اگر ایک عام آدمی کے اوسطا پانچ بچے ہیں تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر تین سے آٹھ ہزار روپے خرچ کرتا ہے۔

زیادہ تر غریب افراد سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں لیکن ان کو نجی ہسپتالوں کی طرف بھی جانا پڑتا ہے اور اگر کسی نجی ہسپتال میں کوئی سرجری کرا لی جائے تو وہ معاشی طور پر 10 سال پیچھے جا سکتا ہے۔

حکومت چاہے تو ان تین مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑی تعداد میں سرکاری تعلیمی اداروں کا رقبہ نجی تعلیمی اداروں سے بہت بہتر ہے لیکن مسئلہ اساتذہ کی عدم دلچسپی یا غیر حاضری ہے۔

اگر ان سکولوں میں قانون نافذ کرنے والوں کی مدد سے عملے کی سو فیصد حاضری کو یقینی بنایا جائے اور معیار تعلیم کو بہتر کیا جائے تو عوام کی ایک بڑی تعداد دوبارہ اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھیج سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر یہاں دوسری اور ممکنہ طور پر تیسری شفٹ شروع کر کے کروڑوں سکول چھوڑ جانے والے طالب علموں کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ممکنہ طور پر شفٹ کے گھنٹے کم کرنے ہوں گے۔

بالکل اسی طرح بڑے پیمانے پر واٹر فلٹر پلانٹس لگا کر پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ آلودہ پانی آسانی سے روکی جانے والی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ملک میں 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔

بنیادی صحت کے مراکز اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت معیاری علاج فراہم کر کے غریب آدمی کے اس بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے، جو مہنگے علاج کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں بھی تین شفٹیں شروع کی جا سکتی ہیں۔

اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان تین مسائل پر بھی بھرپور توجہ دیں تو ایک عام آدمی اپنے ماہانہ اخراجات سے ایک مناسب رقم بچا سکتا ہے۔ 

یو این ڈی پی کے مطابق صرف 50 ارب ڈالرز میں دنیا کے سو سے زائد ممالک کو پینے کا صاف پانی، ابتدائی تعلم و صحت اورکچھ دوسری ضروری سہولیات فراہم کی جاسکتی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا سوشل سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا بجٹ دو ہزار روپے سے زیادہ کا ہے، جو چھ ارب ڈالرز سے زیادہ کا بنتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بجٹ میں یہ بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جا سکتی، جو غربت کو بھی کم کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت