بونڈائی حملہ آوروں نے دیہی علاقوں میں تربیت حاصل کی تھی، آسٹریلوی پولیس

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو جاری کردہ پولیس دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ دونوں نے فائرنگ سے قبل نیو ساؤتھ ویلز کے دیہی علاقوں میں ’آتشیں اسلحہ کی تربیت‘ کی تھی۔

17 دسمبر 2025 کو سڈنی میں بونڈائی ساحل فائرنگ کے متاثرین کی یاد میں بونڈائی پویلین کے سامنے سوگواروں کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) 

آسٹریلوی پولیس نے پیر کو عدالتی دستاویزات میں بتایا کہ بونڈائی ساحل پر گذشتہ ہفتے فائرنگ کے دو مشتبہ افراد نے دیہی علاقوں میں حملے کی تربیت حاصل کی تھی۔

50 سالہ ساجد اکرم اور ان کے 24 سالہ بیٹے نوید پر الزام ہے کہ انہوں نے بونڈائی ساحل پر ہنوکا کی تقریب کو نشانہ بنایا، جس میں تقریباً تین دہائیوں میں ملک کی سب سے مہلک اجتماعی فائرنگ میں 15 افراد مارے گئے۔  

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو جاری کردہ پولیس دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ دونوں نے فائرنگ سے قبل نیو ساؤتھ ویلز کے دیہی علاقوں میں ’آتشیں اسلحہ کی تربیت‘ کی تھی۔

ایسی تصاویر جاری کی گئیں جن میں ملزم کو شاٹ گن سے فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جسے حکام نے ’حکمت عملی‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ اس جوڑے نے اکتوبر میں ’صہیونیوں‘ کے خلاف ایک ویڈیو بھی ریکارڈ کی جب وہ اسلامک سٹیٹ گروپ کے جھنڈے کے سامنے بیٹھے تھے اور حملے کے لیے ان کے محرکات کی تفصیلات بیان کرتے تھے۔  

دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ قتل سے کچھ دن قبل انہوں نے رات کے وقت بونڈائی ساحل کا سفر بھی کیا۔

دوسری طرف آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کی پارلیمان کو آج (22 دسمبر کو) دوبارہ طلب کیا گیا ہے تاکہ ان مجوزہ نئے قوانین پر ووٹنگ کی جا سکے، جن کے تحت آتشیں اسلحے کی ملکیت کے معاملے میں سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی، دہشت گردی کی علامتوں کی نمائش پر پابندی ہو گی اور احتجاجی مظاہروں کو محدود کیا جائے گا۔

 برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ اقدام آسٹریلوی شہر سڈنی کے بونڈائی ساحل پر فائرنگ کے ایک واقعے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

ریاستی پارلیمان کو پیر سے دو دن کے لیے دوبارہ طلب کیا گیا ہے تاکہ اسلحہ سے متعلق قانون سازی پر بحث کی جا سکے، جس کے تحت ایک شخص کے لیے آتشیں اسلحے کی تعداد چار تک محدود کر دی جائے گی، جب کہ کسانوں جیسے بعض مخصوص گروپوں کو زیادہ سے زیادہ 10 ہتھیار رکھنے کی اجازت ہو گی۔

اس وقت اگر پولیس کے سامنے وجہ کو جائز ثابت کرنے کی صورت میں اسلحہ رکھنے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، اور آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، پولیس کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ریاست میں 50 سے زائد ایسے افراد موجود ہیں جن کے پاس سو سے زیادہ بندوقیں ہیں۔

بونڈائی فائرنگ کے مبینہ حملہ آوروں میں سے ایک، 50 سالہ ساجد اکرم، پولیس کی فائرنگ میں مارے گئے۔ ان کے پاس چھ آتشیں ہتھیار تھے۔ پولیس کے مطابق ان کے 24 سالہ بیٹے نوید اکرم 69 الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں قتل اور دہشت گردی کے الزامات بھی شامل ہیں۔

14دسمبر کو سڈنی کے بونڈائی بیچ پر یہودیوں کی ہنوکا تقریب کے دوران ہونے والی فائرنگ میں 15 افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور سخت اسلحہ قوانین کے ساتھ ساتھ یہودی سے نفرت کو روکنے کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔

مجوزہ قانون سازی کے تحت پولیس کو احتجاج یا ریلیوں کے دوران چہروں پر ڈالے گئے نقاب ہٹانے کے اضافی اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ ریاستی حکومت نے ’گلوبلائز دی انتفاضہ‘ کے نعرے پر پابندی لگانے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ معاشرے میں تشدد کو ہوا دیتا ہے۔

یہودی رہنماؤں نے اتوار کو بونڈائی میں ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے رائل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا، جو آسٹریلوی حکومت کی تحقیقات کی سب سے طاقتور قسم سمجھی جاتی ہے۔

اپوزیشن لبرل پارٹی کی سربراہ سوسن لی نے پیر کو ان مطالبات کی حمایت کی اور ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم اینتھنی البانیزی سے ملاقات کی درخواست کی ہے تاکہ رائل کمیشن کے لیے طے کی جانے والی شرائط کا جائزہ لیا جا سکے۔

قبل ازیں آسٹریلیا میں سڈنی کے بونڈائی ساحل پر مسلح حملہ آور کو قابو کرنے والے شخص احمد ال احمد کے لیے قائم فنڈ میں جمع ہونے والے 25 لاکھ آسڑیلین ڈالر کا چیک جمعرات کو احمد کے حوالے کیا گیا۔

احمد زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور انہیں قومی ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔

ان کے لیے ایک فنڈ قائم  کیا گیا ہے جس میں دنیا بھر کے 43 ہزار سے زائد عطیہ دہندگان کی جانب سے جمع ہونے والے 25 لاکھ آسٹریلین ڈالر کا چیک احمد کو دیا گیا۔

البانیزی کی مقبولیت میں کمی

وزیر اعظم اینتھنی البانیزی کو مخالفین کی جانب سے بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے، جن کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت یہودی مخالف نفرت میں اضافے کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکی۔ فائرنگ کے واقعے کے ایک ہفتے بعد اتوار کو بونڈائی میں ہونے والی یادگاری تقریب کے دوران، جس میں ہزاروں افراد شریک تھے، مجمعے میں شامل کچھ افراد نے ان کے خلاف نعرے بازی کی۔

البانیزی کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے یہودی مخالف نفرت کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور گذشتہ دو برس میں منظور کی گئی اس قانون سازی کو اجاگر کیا ہے جس کے تحت نفرت انگیز تقاریر اور کسی کی ذاتی معلومات کو عام کرنا جرم قرار دیا گیا۔ حکومت نے اس سال کے آغاز میں ایران کے سفیر کو بھی ملک بدر کیا تھا، جب تہران پر سڈنی اور میلبرن میں یہودی مخالف حملوں کی ہدایت دینے کا الزام عائد کیا گیا۔

وزیر خارجہ پینی وونگ نے پیر کو اے بی سی ریڈیو کو بتایا کہ ’آپ نے دیکھا ہے کہ ہم نے نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ آپ نے دیکھا کہ ہم نے ذاتی معلومات عام کرنے کو جرم بنایا۔ آپ نے دیکھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف قوانین کے حوالے سے کتنے واضح ہیں، جن میں نازی سلوٹ پر پابندی وغیرہ شامل ہے۔‘

سڈنی مارننگ ہیرلڈ کے لیے کیے گئے ایک سروے کے نتائج، جو پیر کو جاری کیے گئے اور جس میں 1010 ووٹرز شامل تھے، کے مطابق البانیزی کی مقبولیت کی شرح 15 پوائنٹس کمی کے بعد مثبت چھ سے گر کر منفی نو پر آ گئی ہے، جو مئی میں ان کی واضح انتخابی کامیابی کے بعد کی سب سے کم سطح ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکام نے پیر کو بونڈائی بیچ پر عوام کی جانب سے رکھے گئے پھول، موم بتیاں، خطوط اور دیگر اشیا ہٹانے کا عمل شروع کر دیا۔

حکام کے مطابق اس خراج عقیدت کو محفوظ کر کے سڈنی یہودی میوزیم اور آسٹریلین یہودی تاریخی سوسائٹی میں نمائش کے لیے رکھا جائے گا۔

صحت کے حکام کے مطابق بونڈائی حملے میں زخمی ہونے والے 13 افراد اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جن میں چار کی حالت نازک مگر مستحکم ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آسٹریلوی پولیس نے بتایا کہ  گذشتہ ہفتے بونڈائی میں ہونے والی خونریز فائرنگ کے واحد زندہ مشتبہ ملزم کو پیر کو ہسپتال سے جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

24 سالہ نوید اکرم پولیس کی نگرانی میں سپتال میں زیر علاج تھے۔ ان پر دہشت گردی اور 15 افراد کے قتل سمیت متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم اینتھنی البانیزی نے پیر کے روز کہا کہ وہ نفرت انگیز تقاریر اور انتہا پسندی کے خلاف سخت قوانین کے لیے کوشش کریں گے۔

البانیزی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم داعش سے متاثر دہشت گردوں کو جیتنے نہیں دیں گے۔ ہم انہیں اپنے معاشرے کو تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہم سب مل کر اس مرحلے سے نکلیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ہمیں فوری اقدامات اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نفرت پھیلانے والی تبلیغ کو سنگین جرم قرار دینے اور دیگر نئے قوانین کے لیے دو جماعتی حمایت کی اپیل کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا