پاکستان نے سڈنی کے علاقے بونڈائی بیچ میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان کو بغیر ثبوت موردِ الزام ٹھہرانے کی مہم کو منظم، بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا قرار دیتے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس پر معافی مانگی جائے گی؟
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے بدھ کو بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بونڈائی حملے کے فوری بعد بین الاقوامی اور بالخصوص انڈین میڈیا کے بعض حلقوں نے بغیر کسی تصدیق کے یہ دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان یا لاہور سے ہے، جبکہ اس حوالے سے کوئی دستاویزی یا تکنیکی ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’دہشت گردی جیسے سنگین واقعے میں کسی ملک یا خطے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے قابلِ تصدیق شواہد ناگزیر ہوتے ہیں، جن میں قومی ڈیٹا بیس، فنگر پرنٹس، ریٹینا سکین اور فیشل ریکگنیشن شامل ہیں، تاہم ان میں سے کسی سے بھی پاکستان سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔‘
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ انڈین پولیس نے گذشتہ روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ سڈنی حملہ آوروں میں سے ایک تلنگانہ حیدرآباد سے ہے اور ابھی چند لمحے پہلے ہی تصدیق ہوئی ہے کہ اس کا (حملہ آور) پاسپورٹ سڈنی میں انڈین سفارت خانے نے جاری کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس نے انڈین پاسپورٹ پر ہی فلپائن کا سفر کیا جس کی فلپائن کے حکام نے بھی صدیق کی ہے۔‘
’ایک حملہ آور کو محض اس کے نام کی بنیاد پر پاکستانی قرار دینا غیر ذمہ دارانہ صحافت کی بدترین مثال ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعت و نشریات نے سوال کیا کہ ’پاکستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ کیا جھوٹی خبروں پر معافی مانگی جائے گی یا یہ معاملہ تاریخ میں ایک جھوٹے پروپیگنڈا کے طور پر دفن ہو جائے گا؟‘
دوسری جانب آسٹریلوی پولیس نے بدھ کو کہا کہ سڈنی کے مضافاتی بونڈائی ساحل پر فائرنگ کرنے والے زخمی حملہ آور نوید اکرم پر دہشت گردی سمیت 59 جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ نیو ساؤتھ ویلز کی ریاستی پولیس کا کہنا ہے کہ ’مبینہ بونڈائی قاتل پر دہشت گردی، 15 قتل اور دیگر جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔‘
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ ’پولیس عدالت میں اس شخص پر الزام عائد کرے گی کہ اس شخص کے طرز عمل میں ملوث ہے جس کی وجہ سے موت، سنگین چوٹ اور زندگی کو خطرے میں ڈالا گیا تاکہ مذہبی مقصد کو آگے بڑھایا جا سکے اور کمیونٹی میں خوف پیدا ہو۔‘