سڈنی حملہ آور کا تعلق حیدر آباد دکن سے ہے: انڈین پولیس

انڈین پولیس نے کہا ہے کہ مشبہ حملہ آور کا انڈیا چھوڑنے سے قبل پولیس یا سکیورٹی اداروں کے پاس کوئی مجرمانہ یا مشتبہ ریکارڈ موجود نہیں تھا۔

انڈین پولیس نے منگل کو تصدیق کی ہے کہ سڈنی کے بونڈائی ساحل پر حملہ کرنے والے ایک مشتبہ حملہ آور ساجد اکرم کا تعلق جنوبی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدر آباد سے ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس نے بتایا ہے کہ ساجد اکرم کے انڈیا چھوڑنے سے قبل ان کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا تاہم وفاقی ایجنسیوں اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔

تلنگانہ پولیس کا کہنا ہے کہ ساجد اکرم کے انتہا پسندانہ رجحانات کے پیچھے جو عوامل تھے، ان کا انڈیا یا انڈین پس منظر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

 منگل کو جاری بیان میں تلنگانہ پولیس نے کہا کہ 1998 میں آسٹریلیا منتقل ہونے والے 50 سالہ ساجد اکرم انڈیا میں اپنے خاندان سے محدود رابطے میں رہا اور اس کے خلاف انڈیا میں قیام کے دوران کوئی منفی یا مشتبہ ریکارڈ موجود نہیں تھا۔

تلنگانہ پولیس کے بیان میں کہا گیا: ’اہل خانہ نے واضح کیا ہے کہ انہیں ساجد اکرم کی کسی انتہاپسند سوچ، سرگرمی یا اس عمل تک پہنچنے والے حالات کا کوئی علم نہیں تھا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ اکرم نے آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعد چھ مرتبہ انڈیا کا دورہ کیا، جن کا مقصد زیادہ تر خاندانی نوعیت کا تھا۔

تلنگانہ پولیس نے مزید کہا کہ دستیاب شواہد کی بنیاد پر دونوں حملہ آوروں کی شدت پسندی کے عوامل کا انڈیا یا تلنگانہ میں کسی مقامی اثر و رسوخ سے کوئی تعلق سامنے نہیں آیا۔

اس سے قبل منیلا میں حکام نے منگل کو تصدیق کی ہے کہ سڈنی کے بونڈائی بیچ پر ہونے والی ہولناک فائرنگ میں مبینہ طور پر ملوث 50 سالہ ساجد اکرم نے انڈین پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا اور حملے سے ایک ماہ قبل تقریباً پورا مہینہ فلپائن میں ہی گزارا۔

امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کے مطابق فلپائن کے امیگریشن نے تصدیق کی ہے کہ 50 سالہ ساجد اکرم نے انڈین پاسپورٹ پر سفر جبکہ ان کے 24 سالہ بیٹے نوید اکرم آسٹریلوی پاسپورٹ پر ملک کا سفر کیا اور یہ دونوں یکم نومبر 2025 کو سڈنی سے فلپائن پہنچے تھے۔

فلپائنی امیگریشن کے ترجمان ڈانا سینڈووال نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھی بتایا کہ ساجد اکرم اور نوید اکرم یکم نومبر 2025 کو اکٹھے فلپائن میں داخل ہوئے تھے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی کہا ہے کہ آسٹریلوی پولیس بھی اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ باپ بیٹے نے بونڈی بیچ حملے سے قبل فلپائن کا سفر کیوں کیا اور وہاں ان کا قیام کن مقاصد کے لیے تھا۔

نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے کمشنر مال لینن نے منگل کو صحافیوں کو بتایا: ’ہم تحقیق کر رہے ہیں کہ وہ فلپائن کیوں گئے، اس سفر کا مقصد کیا تھا اور انہوں نے وہاں کہاں وقت گزارا، یہ تمام پہلو اس وقت تفتیش کے دائرے میں ہیں۔‘

حکام کے مطابق اس سفر کو حملے کی منصوبہ بندی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے تاہم تحقیقات مکمل ہونے تک کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا۔

آسٹریلیا کی وفاقی پولیس نے کہا ہے کہ سڈنی کے مشہور ساحل بونڈی بیچ پر یہودی تہوار ہنوکا کے دوران پیش آنے والا فائرنگ کا واقعہ ایک ’دہشت گرد‘ حملہ تھا جو ’شدت پسند‘ تنظیم داعش کے نظریے سے متاثر تھا۔

وفاقی پولیس کمشنر کرسّی بیریٹ نے منگل کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس حملے میں 15 افراد مارے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ ان کے مطابق شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق داعش سے متاثر نظریات سے تھا۔

حکام کے مطابق اس حملے میں ملوث ملزمان باپ اور بیٹا تھے، جن کی عمریں بالترتیب 50 اور 24 سال تھیں۔ ساجد اکرم پولیس فائرنگ میں مارے گئے جبکہ ان کا بیٹا زخمی حالت میں ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البنیز نے کہا کہ حکام کے اس مؤقف کی بنیاد ٹھوس شواہد ہیں، جن میں ملزمان کی گاڑی سے برآمد ہونے والے داعش کے جھنڈے اور دھماکہ خیز مواد شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکام کے مطابق واقعے کے بعد اب بھی 25 افراد ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں سے 10 کی حالت تشویشناک ہے، جبکہ تین بچوں کے ہسپتال میں داخل ہیں۔

اس حملے کے بعد آسٹریلیا میں اسلحہ قوانین کو مزید سخت بنانے پر بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم البانیز نے عندیہ دیا ہے کہ 1996 کے بعد سب سے بڑی اصلاحات متعارف کرانے پر غور کیا جا رہا ہے، خاص طور پر اس انکشاف کے بعد کہ مرکزی ملزم کے پاس موجود اسلحہ قانونی طور پر حاصل کیا گیا تھا۔

دوسری جانب بونڈائی بیچ پر تعینات لائف گارڈز کی بہادری کو بھی سراہا جا رہا ہے، جنہوں نے فائرنگ کے دوران زخمیوں کی مدد اور سمندر میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں۔

حملے کے بعد آسٹریلیا بھر میں سوگ کی فضا ہے۔ ہزاروں افراد نے جائے وقوعہ پر پھول رکھ کر مرنے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا، جبکہ خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا