آسٹریلین شہر سڈنی کا ایک رہائشی کے جنہوں نے بونڈائی کے ساحل پر فائرنگ کے دوران حملہ آوروں میں ایک سے بندوق چھینی تھی، بازو اور ہاتھ میں گولیاں لگنے سے آئے زخموں کی سرجری کے بعد وہ ہسپتال میں صحت یاب ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف آسٹریلیوی اور بعض برطانوی میڈیا آؤٹ لیٹس کے مطابق حملہ آوروں کی شناخت 50 سالہ ساجد اکرم (والد) اور ان کے بیٹے 24 سالہ نوید کی حیثیت سے ہو گئی ہے۔ تاہم آسٹریلین حکام نے اس سلسلے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر داخلہ ٹونی برک نے تصدیق کی کہ نوید اکرم اکتوبر 2019 میں سکیورٹی اداروں کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔
اخبار دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ کے مطابق ساجد اکرم 1998 میں سٹوڈنٹ ویزا پر آسٹریلیا پہنچا تھا، جو 2001 میں پارٹنر ویزا پر منتقل ہو گیا، اور تب سے وہ رہائشی ریٹرن ویزا پر ہیں۔
نوید اکرم ایک آسٹریلوی شہری ہیں جو 2001 میں وہاں پیدا ہوئے تھے۔ پولیس نے آج کیمپسی کے علاقے میں ایک چھاپہ مارا، جسے قلیل مدتی کرایہ کی جائیداد سمجھا جاتا ہے جہاں والد اور بیٹے ٹھہرے ہوئے تھے۔
پولیس نے بونی رگ میں ایک مکان پر بھی چھاپہ مارا، دو گرفتاریاں کیں اور جائیداد سے چھ ہتھیار ضبط کیے۔
آسٹریلیوی پولیس کے مطابق اتوار کو دو حملہ آوروں نے آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر سڈنی میں بونڈائی ساحل پر یہودیوں کے ایک تہوار کے دوران اندھا دھند فائرنگ کر کے کم از کم 15 افراد کو جان سے مار دیا۔
والد اور بیٹے نے مبینہ طور پر حملے سے چند ہفتے قبل فلپائن کا دورہ کیا تھا، جس سے خدشات پیدا ہوئے کہ وہ اسلامی انتہا پسندوں کے راستے پر چل رہے ہیں۔
پولیس ذرائع نے دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ کو تصدیق کی کہ یہ جوڑا نومبر میں جنوب مشرقی ایشیائی ملک گیا تھا۔ پولیس نوید اور ساجد اکرم کے اسلامی ریاست کے نظریات سے تعلقات کی تحقیقات کر رہی ہے، جب فائرنگ کے بعد بونڈائی میں گاڑی میں ایک جھنڈا اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد ملا تھا۔
سڈنی کے اخبار نیوز کے مطابق حملہ آور ساجد ایک ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کے مکان کا مالک بھی تھا جہاں وہ اپنی بیوی ونیرا اکرم کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔ ان کا بیٹا جو حملے میں شامل تھا ان کے ساتھ رہتا تھا۔ تاہم اس کی مقامی پولیس نے تصدیق نہیں کی ہے۔
43 سالہ احمد ال احمد کی شناخت سوشل میڈیا پر اس راہ گیر کے طور پر ہوئی، جو پارک کی کئی گاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا اور پیچھے سے بندوق بردار پر حملہ کرنے سے پہلے اس کی رائفل چھین کر اسے زمین پر گرا دیا۔
آسٹریلوی پولیس نے پیر کو کہا کہ ایک 50 سالہ باپ اور اس کے 24 سالہ بیٹے نے اتوار کی سہ پہر بونڈائی ساحل پر ایک تقریب میں حملہ کیا، جس میں تقریباً 30 سالوں میں ملک کی بدترین اجتماعی فائرنگ میں 15 افراد جان سے گئے۔
احمد الاحمد کے کزن جوزے الکانجی نے پیر کی شام سڈنی کے ہسپتال سے باہر نکلتے ہوئے کہان کہ ’اس کی پہلی سرجری ہوئی ہے۔ میرے خیال میں اس کی دو یا تین سرجری ہوئی ہیں، یہ ڈاکٹر پر منحصر ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔‘
بیرون ملک اور اندرون ملک رہنماؤں کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے احمد کو ’بہت بہادر شخص‘ قرار دیا جس نے بہت سی جانیں بچائیں۔ نیو ساؤتھ ویلز ریاست جہاں سڈنی واقع ہے کے وزیر اعظم کرس منز نے انہیں ’ایک حقیقی ہیرو‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ویڈیو ’میں نے اب تک کا سب سے ناقابل یقین منظر دیکھا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احمد کے لیے چند گھنٹوں میں صرف 132,900 ڈالر کے ساتھ ایک GoFundMe مہم ترتیب دی گئی ہے۔ ارب پتی ہیج فنڈ مینیجر بل ایک مین سب سے بڑا عطیہ دہندہ تھے، جنہوں نے 99,999 آسٹریلین ڈالرز کا تعاون کیا اور اپنے ایکس اکاؤنٹ پر فنڈ ریزر کا اشتراک کیا۔
احمد کا علاج سڈنی کے مضافاتی علاقے کوگارہ کے سینٹ جارج ہسپتال میں کیا جا رہا ہے۔
میشا اور ویرونیکا پوچوئیف اپنی سات سالہ بیٹی میروسلاوا کے ساتھ احمد کے لیے پھول دینے ہسپتال آئیں۔
ویرونیکا نے کہا، ’میرے شوہر روسی ہیں، میرے والد یہودی ہیں، میرے دادا مسلمان ہیں۔ یہ صرف بونڈائی کے بارے میں نہیں، یہ ہر شخص کے بارے میں ہے۔‘
میروسلاوا نے گلدستے کو ایک نوٹ کے ساتھ تھام رکھا تھا جس پر لکھا تھا ’احمد کے لیے: ہمت اور جان بچانے کے لیے۔‘
43 سالہ یومنا تونی احمد کی صحت یابی کے لیے رقم جمع کر رہی ہیں۔
تونی نے کہا کہ ’اس نے ممکنہ طور پر کل بہت سے لوگوں کو بچایا، اور یہ کہ، ہمارے لیے، اسلامی نقطہ نظر سے، تمام بنی نوع انسان کو بچانا ہے، آپ جانتے ہیں۔
’ایک شخص کو مارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے، اور ان دہشت گردوں نے یہی کیا۔‘