سماجی ناہمواریوں کے حوالے سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک چھوٹی سی اقلیت اس لیے امیر ہے کہ وہ ذہین، محنتی اور جدت پسند ہوتی ہے۔ جب کہ کرہ ارض پر عوام الناس کی ایک بڑی تعداد غالباً اس لیے غریب ہے کیونکہ وہ آگے بڑھنا نہیں چاہتی یا محنت کرنا نہیں چاہتی.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محنت کرنے سے ہی انسان امیر بنتا ہے، تو وہ کسان، جو طلوع افتاب سے غروب آفتاب تک پورے عہد وسطی میں محنت کرتا رہا، اس کے گھر میں تو فاقوں کا راج کیوں رہا جب کہ وہ جاگیردار اور نواب جو صرف جانوروں اور بعض اوقات انسانوں کا شکار کرتے تھے، ان کے در پر دولت کیوں دستک دیتی رہی؟
جن ممالک میں جاگیرداری نظام آج بھی ہے، وہاں صورت حال اب بھی یہی ہے۔ چاہے وہ برطانیہ اور فرانس کی زرعی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں یا ہندوستان کے نواب، اگر ان سب کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے کسی نے بھی شاید محنت جیسے شجرِ ممنوعہ کو کبھی ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔
بالکل اسی طرح کئی عوامی مفکر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگرمحنت سے ہی دولت حاصل کی جاتی ہے، تو وہ مزدور جو اپنے خون پسینے سے مردہ مشینوں میں جان پھونکتا ہے اور اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ دولت اگلنے لگے، وہ خود فاقوں کا شکار کیوں رہتا ہے؟ وہ بہترین عمارتیں بناتا ہے لیکن خود کو جھونپڑی بھی میسر نہیں ہوتی۔ بہترین کاریں اور پر تعیش گاڑیاں بناتا ہے لیکن خود ایک سائیکل بھی خرید نہیں سکتا۔
وہ بہترین کپڑے بناتا ہے لیکن اس کے اپنے بچوں کو کبھی اچھا لباس میسر نہیں ہوتا۔ بہترین چپل اور جوتے بناتا ہے لیکن اس کے لخت جگر جون کی تپتی دھوپ میں گلی محلوں میں ننگے پیر گھومتے ہیں۔ وہ بہترین کمبل اور لحاف بناتا ہے لیکن اس کے اپنے گھر والے دسمبر کی سخت سردی میں ٹھنڈ سے اکڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تمام محنت کے باوجود اس کو بمشکل اتنا ہی ملتا ہے کہ وہ جسم و جاں کے رشتہ کو برقرار رکھ سکے۔
یہ حجت پیش کی جاتی ہے کہ اگر اقوام کے اس بحرالکاہل میں، دولت اورامارت کے چند جزیریں ہیں، تو ان کی جاہ و حشمت کے پیچھے ظلم، استحصال، ناانصافی، نسل کشی اور لوٹ مار پنہاں ہے۔ کئی مورخین کا خیال ہے کہ آج اگر امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے، تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی عوامل ہیں۔
مثال کے طور پہ جب کرسٹوفر کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو شمالی اور جنوبی امریکہ کی مشترکہ مقامی آبادی تقریباً چھ کروڑ کے قریب تھی۔ امریکی مورخ ہاورڈ زن کے مطابق اس میں سے 90 فیصد سے زیادہ آبادی وبائی امراض، جنگ اور نسل کشی کی وجہ سے ختم ہو گئی۔ اس کے علاوہ سوا کروڑ سے لے کر ساڑھے پانچ کروڑ افریقی سیاہ فام افراد کو غلام بنایا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں یورپ سے غریب مزدوروں کو انتہائی کم اجرت پر کام کرنے کے لیے لایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی امارت کے پیچھے بھی کئی ناقدین ظلم و استبداد اور نوآبادیاتی لوٹ مار دیکھتے ہیں۔ بھارتی سیاست دان اور مصنف ششی تھرور کے مطابق برطانوی پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستان میں کئی قحط آئے، جن میں ساڑھے تین کروڑ کے قریب ہندوستانی لقمہ اجل بنے۔ کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں الزام لگایا گیا ہے کہ صرف ہندوستان سے برطانیہ کئی کھرب ڈالر لوٹ کر لے گیا۔
فرانسیسی نو آبادیات کے ناقدین اس یورپی ملک کی خوشحالی کو نو آبادتی لوٹ مار اور ظلم استبداد سے جوڑتے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فرانسیسی حکمراں طبقات نے شمالی افریقہ، انڈوچائنا سمیت کئی نوآبادیایوں میں نہ صرف لوٹ مار کی بلکہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہلاک بھی کیا اور اپنی ثقافت کو ان پر زبردستی تھونپنے کی کوشش کی۔
جرمنی، سپین، پرتگال، ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی اور کچھ دوسرے مغربی ممالک کی دولت کو بھی اس استحصال کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جب کہ جاپان کی خوشحالی کو بھی چین اور دوسرے ممالک میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے منسلک کیا جاتا ہے۔
بیلجیم کے بادشاہ لیوپال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے دور حکومت میں بیلجیم کانگو کے ایک کروڑ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جب کہ 10 لاکھ سے زائد کے اعضا کو کاٹ گیا۔
کچھ مورخین کا دعویٰ ہے کہ اگر تاریخی طور پہ دیکھا جائے تو جن ممالک نے لوٹ مار میں حصہ لیا وہ رفتہ رفتہ امیر بنتے گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چودھویں صدی میں ایک افریقی مسلمان بادشاہ مانسی موسی، جس نے مالی پر 1312 سے لے کر 1337 تک حکومت کی، حج کے لیے نکلا اور راستے میں لوگوں کو سونا بانٹتے ہوئے گیا۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جن ممالک نے 1492 کے بعد لوٹ مار شروع کی، سولہویں صدی میں یہ نہ صرف دنیا کے امیر ترین ممالک میں تھے بلکہ عالمی طاقت بھی ان کے قدموں میں تھی؟
اس واقعے کی شہرت سن کر سب سے پہلے پرتگالیوں نے افریقہ اور دوسرے ممالک کا رخ کیا۔ 1492 میں کرسٹوفر کولمبس کے سفر سے سپین اور پرتگال کا راستہ جنوبی، وسطی اور شمالی امریکہ کے لیے کھل گیا۔ کچھ مورخین کا دعویٰ ہے کہ سپین نے امریکہ کی قدیم ایزٹک، انکا اور مایا تہذیبوں کا خاتمہ کیا اور وہاں کے مقامی لوگوں پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ بڑے پیمانے پر سونا، چاندی اور غلاموں کو اپنے قبضے میں کیا گیا۔
پرتگال نے برازیل پر قبضہ کیا اور مقامی مورخین کے مطابق وہاں پر اس سامراجی ملک نے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی۔
سماجی علوم کے کئی ماہرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ان دو ممالک کے حاکم طبقات نے 1492 کے بعد لوٹ مار شروع کی اور سولہویں صدی میں یہ نہ صرف دنیا کے امیر ترین ممالک میں تھے بلکہ عالمی طاقت بھی ان کے قدموں میں تھی؟
بعد میں اس لوٹ مار کا حصہ ولندیزی بنے اور وہ یورپ کی ایک بڑی طاقت بن کے ابھرے۔ ان کے پیچھے پیچھے برطانیہ اور فرانس آئے اور دولت کی دیوی نے ان دونوں ممالک کے حکمراں طبقات کے قدم چومے۔ جاپان نے منچوریہ کو اپنا آسٹریلیا قرار دیا اور اپنے خطے کے دگر ممالک کو یرغمال بنانے کی کوشش کی۔
ہاورڈ زن کے مطابق اگر کولمبس کے دریافت کردہ خطے میں پلانٹیشن نہ ہوتی امریکہ اور یورپ میں کوئی صنعت کاری نہ ہوتی، اور اگر غلامی نہ ہوتی تو پلانٹیشن کا تصور نہ ممکن تھا۔
اس کا یہ مختصر بیان جبر و استحصال کی پوری تاریخ کا خلاصہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔