گدھے یا گائے کے گوشت کو جانچنے کے آلات اسلام آباد میں نہیں: سینیٹ کمیٹی میں انکشاف

ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ ڈاکٹر طاہرہ نے منگل کو انکشاف کیا کہ ’اسلام آباد میں گوشت کو چیک کرنے کا نظام نہیں ہے کہ یہ کس جانور کا گوشت ہے۔ گدھے کا ہے یا گائے کا، پی سی آر کی سہولت ہمارے پاس نہیں ہے۔‘

اسلام آباد کے حکام نے سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں گائے یا گدھے کے گوشت کو جانچنے کے آلات موجود نہیں ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ ڈاکٹر طاہرہ نے منگل کو انکشاف کیا کہ ’اسلام آباد میں گوشت کو چیک کرنے کا نظام نہیں ہے کہ یہ کس جانور کا گوشت ہے۔ گدھے کا ہے یا گائے کا، پی سی آر کی سہولت ہمارے پاس نہیں ہے۔‘

اسلام آباد میں گدھے کے گوشت کی فروخت کا واقعہ جولائی 2025 میں پیش آیا۔ فوڈ اتھارٹی نے ترنول کے علاقے میں چھاپہ مار کر 25 من گوشت اور 50 سے زائد زندہ گدھے برآمد کیے تھے اور ایک غیر ملکی شہری کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ گوشت بیرون ملک سپلائی کیا جانا تھا اور اسلام آباد میں فروخت کے ٹھوس شواہد نہیں ملے تھے۔

پولیس اور فوڈ اتھارٹی نے مقدمہ درج کر کے گوشت تلف کر دیا اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔

منگل کو ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ ڈاکٹر طاہرہ نے سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو بتایا کہ ’شبہ ہونے پر پر ہم گوشت کو پنجاب کی فرانزک لیب بھجواتے ہیں۔ لیب ٹیسٹ کی رپورٹ ایک ہفتے بعد ملتی ہے۔‘

ڈاکٹر طاہرہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ترنول کے واقعے کے تناظر میں بتایا کہ ’وہاں پر زندہ گدھے موجود جس کی وجہ سے ہمیں اندازا ہوا کہ یہ گدھوں کا گوشت ہے مزید یہ کہ وہاں موجود افراد نے اس کا اقرار بھی کر لیا تھا۔‘

ان سے جب پوچھا کہ ’گدھے کے گوشت کی ترسیل اسلام آباد میں کہاں ہوئی؟‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’وہ گوشت صرف غیر ملکیوں کو دیا گیا تھا اور یہ پہلی کھیپ ہی تھی اس کے علاوہ یہ گوشت اور کہیں بھی نہیں دیا گیا۔‘

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم رحمٰن کی سربراہی میں ہوا انہوں نے کہا کہ ’چند دن قبل گدھے کے گوشت کا معاملہ خبروں میں آیا اس پر بریف کریں۔‘

ڈپٹی ڈائریکٹر اسلام آباد فوڈ اتھارٹی ڈاکٹر طاہرہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں فوڈ ٹیسٹنگ کی مینول مشینری موجود ہے، ہمارے پاس فوڈ ٹیسٹنگ کے لیے آلات اور لیبارٹری اسلام آباد میں نہیں ہے۔‘

سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ’یعنی آپ نے ٹیسٹ نہیں کیا اور ہم گدھے کا گوشت کھا رہے ہیں؟‘

اس موقع پر وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ ’گدھے کا گوشت عام گوشت سے مہنگا ملتا ہے۔ یہ جو تاثر ہے کہ ریسٹورنٹ والے گدھے کا گوشت خریدتے ہیں یہ ان کو مہنگا پڑے گا۔ بدقسمتی سے ریسٹورنٹس ایک دوسرے کے خلاف مہم کے لیے بھی یہ افواہ پھیلاتے ہیں۔‘

رکن کمیٹی فیصل سبزواری نے پوچھا کہ ’کیسے پتہ چلے گا کہ گوشت مردار جانور کا ہے؟‘

اس پر فوڈ ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہرہ نے جواب دیا کہ ’گوشت حلال ہے یا حرام، یہ گوشت کو دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے۔ اگر جانور بیمار ہو تو جگر پر خون بھی ہوتا ہے اور چربی بھی سفید ہو جاتی ہے اس سے بھی پتہ چل جاتا ہے۔ کہ گوشت مردار ہے یا نہیں۔‘

چیئرمین کمیٹی کی اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کو ہدایت دی کہ ’آئندہ اجلاس میں مکمل رپورٹ پیش کریں۔‘

اسلحہ لائسنس صرف ان لوگوں کو ملیں گے جو ٹیکس ادا کرتے ہیں: سینیٹ داخلہ کمیٹی میں تجویز

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی میں بلوچستان کے سینیٹرز دوستان خان دومکی اور نسیمہ احسان نے سکیورٹی مہیا نہ ہونے پر تخفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’اگر حکومت سکیورٹی نہیں دے سکتی تو ہمیں اسلحہ لائسنس دے دیں تاکہ ہم اپنی خفاظت خود کر سکیں۔‘

اس پر وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے بتایا کہ ’سینیٹرز کے مراعات میں ایک اسلحہ لائسنس رکھنے کی اجازت ہے اور جہاں سکیورٹی کی ضرورت ہو گی اضافی لائسنس بھی دے سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’لیکن جیسے پہلے لاتعداد اسلحہ لائسنس ملتے تھے وہ سلسلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس طرح خدشات بھی جنم لیتے ہیں۔‘

اس پر چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم رحمٰن نے کہا کہ ’اسلحہ لائسنس صرف ان کو دیے جائیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے ان کے لائسنس منسوخ کر دیں۔‘

وزیر مملکت داخلہ نے جواب دیا کہ ’ایسی پالیسی فی الحال نہیں ہے لیکن یہ تجاویز ہم زیر غور لائیں گے۔‘

خیبرپختونخوا میں سرکار کی 26 کروڑ مالیت کی چوری

سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ اجلاس میں چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم رحمٰن نے انکشاف کیا کہ ’خیبرپختونخوا میں 26 کروڑ مالیت کی سرکار نے چوری کی اور اس پر سرکار ہی اب تفتیش کر رہی ہے۔‘

وزیر مملکت طلال چوہدری نے ریمارکس دیے ’خیبرپختونخوا میں سرکار تو وہاں کی حکومت ہے۔‘

حکام صوابی پولیس نے کمیٹی میں بتایا ’دو ہزار 828 سگریٹ کارٹن سرکاری گودام سے چوری ہوئے جو ایف بی آر کے پاس تھا، ڈی سی کی درخواست پر مقدمہ درج ہوا، ایف آئی آر کا اندراج کرانے والا بھی سرکاری اہلکار تھا جو فوری طور پر حج پر چلا گیا، جب تفتیش کی تو پتا چلا کہ جس کمپنی کے سگریٹ پکڑے گئے ان کا مقدمہ عدالتوں میں چل رہا ہے۔‘

چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ ’یہ تو سرکار کا مقدمہ سرکار کی چوری کے خلاف ہے جس میں تفتیش بھی سرکار ہی کر رہی ہے۔‘

چیئرمین ایف بی آر آئندہ اجلاس میں پیش ہو کر بتائیں کہ ان کے افسر کیسے چوری میں ملوث ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان