بھارتی پارلیمنٹ میں گدھے اور چمچے جیسے الفاظ پر پابندی

بھارتی پارلیمنٹ میں 40 الفاظ کو ’غیر پارلیمانی‘ قرار دیا جائے گا اور ان کا استعمال کرنے والے ارکان، چاہے ان کا تعلق ایوان بالا سے ہو یا ایوان زیریں سے، کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔

تین فروری 2020 کی اس تصویر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نئی دہلی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے(اے ایف پی)

بھارتی پارلیمنٹ نے عام استعمال کے 40 ایسے الفاظ پر پابندی عائد کر دی ہے جو ملک کی سیاسی لغت میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں جبکہ انہی الفاظ کے ذریعے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ان الفاظ کی فہرست میں روز مرہ کے استعمال ہونے والے الفاظ جن میں ’شرمندہ، انارکسٹ، بدعنوان، مجرمانہ، غنڈہ گردی، ڈرامہ، دھوکے بازی، جھوٹ، غلط اور نالائق‘ جیسے الفاظ شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق ممنوعہ الفاظ کی اس فہرست میں ’غلط، باب کٹ، لولی پاپ، خون خرابہ، طاقت کا بے جا استعمال، بچگانہ، بےعزت، گدھا، بزدل، بددیانتی کرنا‘ حتی کہ ’جنسی ہراسانی‘ جیسے لفظ بھی شامل ہیں۔

ان الفاظ کو اب ’غیر پارلیمانی‘ قرار دیا جائے گا اور ان کا استعمال کرنے والے ارکان، چاہے ان کا تعلق ایوان بالا سے ہو یا ایوان زیریں سے، کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔

بھارت کے سیاسی نظام میں بھارتی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے لیے ’غنڈہ گردی، منافقت اور نالائق‘ جیسے الفاظ کا اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔

اس فہرست میں ہندی زبان کے ایسے الفاظ اور جملے بھی شامل ہیں جو وزیراعظم مودی کی حکومت کے عہدیداروں اور پالیسیز کے لیے خصوصی طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان میں دنگا(فسادات)، بہری سرکار(نہ سن سکنے والے انتظامیہ)، کالا بازاری(ذخیرہ اندوزی)، گرگٹ(رنگ بدلنا)، دلال(درمیانہ فرد)، یہ لفظ بی جے پی اور مودی کے حامیوں کے لیے طنزیہ طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چمچہ(غلام) اور چیلا(پیروکار) بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

ایک مخصوص جملہ ’مگر مچھ کے آنسو‘ وزیراعظم مودی پر تنقید کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ایسا تب سے کیا جا رہا ہے جب مودی کرونا کی وبا کے دوران اپنی حکومت پر کی جانے والی سخت تنقید پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے۔

بھارتی حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم مودی اور ان کی انتظامیہ کے لیے استعمال کیے جانے والے جملے بھی اس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔

ان میں ’جملہ جیوی یعنی جھوٹے وعدے کرنے والا‘ اور بال بدھی یعنی بچوں جیسا دماغ رکھنے والا، کوویڈ پھیلانے والا اور سنوپ گیٹ جیسے الفاظ بھی ممنوعہ قرار دیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنوپ گیٹ کی اصطلاح اس وقت سے زیر استعمال ہے جب مودی انتظامیہ پر سیاسی رہنماوں، حزب اختلاف کے ارکان، صحافیوں اور متحرک افراد کی پیگاسوس سپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

اس فیصلے کے نتیجے میں یہ الفاظ اور جملے پارلیمانی ریکارڈ سے حدف کر دیے جائیں گے اور مستبقل میں بھی پارلیمانی کارروائی کا حصہ نہیں بنائے جائیں گے۔

پی ٹی آئی(پریس ٹرسٹ آف انڈیا) کے مطابق پارلیمنٹ کے اعلی عہدیدار، یعنی ایوان بالا کہ چیئرمین اور ایوان زیرں کے سپیکر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں ان الفاظ کے استعمال پر ان کو حدف کرنے کا حتمی فیصلہ کریں گے۔

’غیر پارلیمانی‘ الفاظ کی فہرست میں یہ ترامیم پارلیمنٹ کے مون سون میں طلب کیے جانے والے اجلاس سے قبل کی گئیں ہیں جو 18 جولائی سے 12 اگست تک ہو گا۔ یہ سالانہ طور پر ہونے والے تین اجلاسوں میں سے دوسرا اجلاس ہوتا ہے۔

بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین سے اس مون سون اجلاس کے دوران ملک کو درپیش کئی مسائل پر بات کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

بھارت بھر کے حزب اختلاف کے رہنماوں نے اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا ہے اور اسے قانون سازوں کی ’زبان بندی‘ کا حکم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ الفاظ مودی کی جماعت کے ’بھارت کو تباہ‘ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے جمعرات کی صبح اس وقت حکومت کا مذاق اڑایا جب انہوں نے کہا کہ لفظ ’غیر پارلیمانی‘ وزیراعظم مودی کی ’حکومت چلانے کی اہلیت کو بیان کرتا ہے جس کے بولنے پر اب پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘

آل انڈیا ترینمول کانگریس کی رکن پارلیمان ماہوا موئترا نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایوان زیریں اور ایوان بالا کے لیے غیر پارلیمانی الفاظ کی نئی فہرست میں سنگی(بھارت میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے لیے استعمال ہونے والا لفظ) شامل نہیں ہے۔ بنیادی طور پر حکومت نے ان تمام الفاظ پر پابندی عائد کر دی ہے جن کے ذریعے اپوزیشن بی جے پی کے بھارت کو تباہ کرنے کو بیان کرتی تھی۔‘

حزب اختلاف کے ایک اور رہنما ڈیرک اوبرین کا کہنا ہے کہ وہ یہ ’تمام‘ الفاظ استعمال کرتے رہیں گے۔

ڈیرک اوربرین نے ٹویٹ کیا کہ ’اجلاس کچھ دن میں شروع ہو گا، ارکان پارلیمان کی زبان بندی کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ میں یہ تمام الفاظ استعمال کروں گا۔ مجھے معطل کر دو۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا