سری لنکا کا بحران جاری، بھارت کی فوج بھیجنے کی تردید

سری لنکا میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ابھی تک صدر گوٹابیا راج پکشے اور وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کے متبادل پر اتفاق نہیں کیا، جبکہ بھارت کے اپنی فوج بھیجنے کے حوالے سے بھی قیاس آرئیاں ہیں۔

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں صدارتی سیکریٹیریٹ کے باہر حکومت مخالف مظاہرن 11 جولائی 2022 کو ملک کا پرچم لہرا رہے ہیں (اے ایف پی)

سری لنکا میں جاری سیاسی بحران کو ایک ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ حکومت مخالف مظاہرین تاحال صدر اور وزیر اعظم کی رہائش گاہوں میں موجود ہیں جبکہ کولمبو میں بھارتی ہائی کمیشن نے ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا جا رہا تھا کہ بھارت اپنی فوج سری لنکا بھیج رہا ہے۔

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سری لنکا میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ابھی تک صدر گوٹابیا راج پکشے اور وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کے متبادل پر اتفاق نہیں کیا۔

گذشتہ ہفتے مظاہرین نے صدر گوٹابیا راج پکشے کے گھر، ان کے سمندر کے کنارے واقع دفتر اور وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کی سرکاری رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا تھا اور مطالبہ کیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں۔

بدعنوانی اور بدانتظامی نے اس جزیرہ نما ملک کو قرضوں تلے دبا دیا ہے۔ سری لنکا خوراک، تیل، ادویات اور دیگر ضروری اشیا درآمد نہیں کر پا رہا جس کی وجہ سے دو کروڑ 20 لاکھ افراد کے درمیان اشیا ضروریہ کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سری لنکا ہمسایہ ملک بھارت، چین اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مدد مانگ رہا ہے۔

پارلیمنٹ کے سپیکر کے مطابق گوٹابیا راج پکشے نے کہا ہے کہ وہ رواں ہفتے میں عہدہ چھوڑ دیں گے۔ جبکہ مظاہرین نے استعفوں کی سرکاری منظوری تک صدر اور وزیراعظم کی رہائش گاہوں میں موجود رہنے کا عہد کیا ہے۔

گذشتہ روز ایک ویڈیو بیان میں وزیراعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ اس وقت تک عہدے پر رہیں گے جب تک نئی حکومت قائم نہیں ہو جاتی کیونکہ وہ آئین کے اندر کام کرنا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم وکرما سنگھے نے کہا: ’حکومت کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔  میں یہاں آئین کے تحفظ اور اس کے ذریعے عوام کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں۔ آج ہمیں ایک کل جماعتی حکومت کی ضرورت ہے اور ہم اس کے قیام کے لیے اقدامات کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوام نے کئی روز سے صدر کو نہیں دیکھا اور نہ ہی سنا، جبکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔

کئی مہینوں کے مظاہروں نے گوٹابیا راج پکشے کی خاندانی سیاست کو ختم کردیا ہے جس نے گذشتہ دو دہائیوں میں سری لنکا پر حکومت کی ہے۔

وکرما سنگھے نے ان واقعات کی بھی وضاحت کی جس کی وجہ سے ہفتے کو ان کی نجی رہائش گاہ کو نذر آتش کیا گیا۔

انہوں نے کہا: ’پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس چلائی۔ آخری آپشن گولی مارنا تھا۔ ہم نے گولی نہیں چلائی لیکن وہ آئے اور گھر کو جلا دیا۔‘

جب ہزاروں افراد نے سری لنکا میں صدر اور وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہوں پر دھاوا بولا تو خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ہمسایہ ملک کی مدد کے لیے بھارت اپنی فوج بھیج رہا ہے لیکن کولمبو میں بھارتی ہائی کمیشن نے ان کی تردید کر دی ہے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Independent Urdu (@indyurdu)

عرب نیوز کے مطابق کولمبو میں بھارتی ہائی کمیشن نے ایک بیان میں کہا: ’ہم سوشل میڈیا پر بھارت کی جانب سے سری لنکا میں اپنی فوج بھیجنے کے بارے میں قیاس آرائیوں کی واضح طور پر تردید کرتے ہیں۔ یہ رپورٹیں اور اس طرح کے خیالات بھی بھارتی حکومت کے مؤقف کے مطابق نہیں۔‘

سری لنکا کا واحد قریبی پڑوسی ملک بھارت بحران کے دوران غیر ملکی امداد کا بنیادی ذریعہ رہا ہے جس نے اس جزیرہ نما ملک کو 3.8 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا: ’جنوبی ایشیا کے لیے بھارت کی خارجہ پالیسی میں سری لنکا ایک ’مرکزی حیثیت‘ رکھتا ہے۔ ہم سری لنکا میں حالیہ پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت سری لنکا کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔‘

سری لنکا کی قومی امن کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جہان پریرا نےعرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو سری لنکا کی معاشی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کے جمہوری حقوق کا احترام کیا جائے جس میں ناکام حکومت کے خلاف احتجاج کا حق بھی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا