یوکرین کے صدر وولودی میر زیلینسکی (آج) پیر کو دوبارہ اوول آفس پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے روس یوکرین جنگ کے مستقبل سے متعلق ملاقات کریں گے۔
اس سے قبل ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں غیر معمولی حد تک کشیدہ گفتگو اچانک ختم ہو گئی اور مستقبل میں یوکرین کے لیے امریکی حمایت پر سوالیہ نشان لگ گئے۔
28 فروری کی ملاقات میں ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے براہ راست نشریات میں زیلینسکی سے سخت لہجے میں بات کی اور ان پر الزام لگایا کہ وہ روس کے تین سال پہلے ہونے والے حملے کے بعد دی جانے والی امریکی امداد پر شکریہ ادا کرنے پر تیار نہیں۔ انہوں نے یوکرینی صدر پر جنگ ختم کرنے کے لیے فوری مذاکرات پر زور دیا تھا۔
اس کشیدگی نے کیئف اور واشنگٹن کے تعلقات میں موڑ پیدا کر دیا جو سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں خوشگوار رہے تھے اور خدشات بڑھ گئے کہ ٹرمپ یوکرین کی امریکی فوجی امداد بند کر دیں گے۔
جمعہ کو ٹرمپ نے الاسکا میں روسی صدر پوتن سے ملاقات کی تاکہ یوکرین تنازع پر بات کر سکیں، اور یہ وعدہ کیا کہ کسی معاہدے پر رضامندی سے پہلے وہ تمام تجاویز یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ شیئر کریں گے۔ پوتن سے ملاقات کے فوراً بعد ٹرمپ نے زیلینسکی کو اوول آفس مدعو کیا۔
شاید گذشتہ سفارتی تنازع کی نوعیت کے حوالے سے محتاط، زیلینسکی نے فوراً کہا کہ وہ اس ’دعوت پر شکر گزار‘ ہیں۔
دریں اثنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کی رات کہا کہ یوکرینی رہنما وولودی میر زیلینسکی روس کے ساتھ جنگ کو ’تقریباً فوراً‘ ختم کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں تاہم روس کے قبضے میں موجود کرائمیا واپس لینا یا یوکرین کی نیٹو میں شمولیت زیر غور نہیں۔
یوکرین کے صدر کے ساتھ ملاقات سے ایک دن قبل ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں کہا کہ ’یوکرین کے صدر زیلینسکی اگر چاہیں تو روس کے ساتھ جنگ کو تقریباً فوراً ختم کر سکتے ہیں، یا وہ لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اوباما کا دیا ہوا کرائمیا واپس نہیں مل سکتا (12 سال قبل بغیر ایک گولی چلائے!) اور یوکرین کا نیٹو میں شامل ہونا بالکل ممکن نہیں۔ کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یورپی رہنما بھی پیر کو واشنگٹن میں زیلینسکی کے ساتھ موجود ہوں گے، سب سے بڑھ کر اس مقصد کے ساتھ کہ اوول آفس میں دوبارہ کوئی خراب صورت حال پیدا نہ ہو بلکہ امن مذاکرات کے راستے پر ہم آہنگی بھی قائم کی جائے، خاص طور پر اس بارے میں کہ آئندہ کسی روسی حملے کو کیسے روکا جا سکے۔
ایک یورپی حکومتی ذریعے کے مطابق زیلینسکی کی ٹرمپ کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات متوقع ہے۔ اس کے بعد یورپی رہنما شامل ہوں گے جن میں برطانیہ کے وزیراعظم کیئر سٹارمر، فرانس کے صدر ایمانویل میکرون، جرمنی کے چانسلر فریڈرش میرز، نیٹو کے سکریٹری جنرل مارک رُٹے اور یورپی یونین کی سربراہ ارسلا فان ڈیر لاین شامل ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق گذشتہ ملاقات میں زیلینسکی پر سخت تنقید کرنے والے نائب صدر وینس بھی ملاقات میں موجود ہوں گے۔
دریں اثنا وولودی میر زیلینسکی کا کہنا ہے کہ تمام فریقین جنگ کے فوری خاتمے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے دیرپا امن کی اپیل کی وہ اتوار کی رات امریکی قبل واشنگٹن پہنچے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’ہم سب اس جنگ کو جلد اور پائیدار طریقے سے ختم کرنے کی مضبوط خواہش رکھتے ہیں۔‘