سری لنکا: ہزاروں مظاہرین کا صدارتی محل پر دھاوا

مظاہرین سری لنکا کے پرچم تھامے صدارتی محل کے اندر داخل ہوگئے، جن کا مطالبہ تھا کہ صدر گوٹابایا راجا پاکسے استعفیٰ دیں، جو اس سے قبل ہی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکل چکے تھے۔

معاشی بحران کے شکار ملک سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ہزاروں مظاہرین نے ہفتے کو پولیس سے جھڑپوں کے بعد رکاوٹیں توڑ کر صدارتی محل پر دھاوا بول دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین سری لنکا کے پرچم تھامے صدارتی محل کے اندر داخل ہوئے، جن کا مطالبہ تھا کہ صدر  گوٹابایا راجا پاکسے استعفیٰ دیں، جو اس سے قبل ہی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکل چکے تھے۔

یہ احتجاج معاشی اور سیاسی بحران میں گھرے ملک میں سب سے بڑے حکومت مخالف مارچ میں سے ایک ہے۔

مقامی نشریاتی ادارے ’نیوز فرسٹ‘ پر جاری ویڈیو فوٹیج میں کچھ مظاہرین کو سری لنکا کے پرچم تھامے اور ہیلمٹ پہنے صدارتی محل کے اندر گھستے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

وزارت دفاع کے دو ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو ہفتے کو ہونے والی حکومت مخالف ریلی سے قبل ان کی حفاظت کے پیش نظر جمعے ہی کو صدارتی محل سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا تھا۔‘

صدارتی محل کے اندر سے ایک فیس بک لائیو سٹریم میں سینکڑوں مظاہرین کو دیکھا جا سکتا ہے، جن میں سے کچھ محل کے کمروں اور راہداریوں میں راجا پاکسے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

نوآبادیاتی دور میں تعمیر کیے گئے صدارتی محل کی سفید عمارت کے باہر بھی سینکڑوں لوگ گراؤنڈ پر موجود تھے، تاہم وہاں کوئی سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آیا۔

ہسپتال ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ تازہ مظاہروں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 21 افراد زخمی ہوئے، جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دو کروڑ 20 لاکھ آبادی پر مشتمل یہ ملک 1948 میں آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ سری لنکا نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ کی شدید قلت سے نبرد آزما ہے بلکہ یہاں ایندھن، خوراک اور ادویات کی ضروری اشیا بھی معدوم ہیں۔

بہت سے لوگ ملک کے معاشی زوال کا ذمہ دار صدر گوتابایا راجا پاکسے کو ٹھہراتے ہیں۔ 

ایک عینی شاہد نے روئٹرز بتایا کہ ’کولمبو میں ہزاروں افراد نے صدر کے خلاف نعرے لگائے اور راجا پاکسے کے گھر تک پہنچنے کے لیے پولیس کی کئی رکاوٹیں توڑ دیں۔‘

عینی شاہد نے مزید بتایا کہ ’پولیس نے ہوا میں گولیاں چلائیں لیکن مشتعل ہجوم کو صدر کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے سے روکنے میں ناکام رہی۔‘

روئٹرز فوری طور پر صدر کے نئے ٹھکانے کی تصدیق نہیں کر سکا۔

ایندھن کی شدید قلت کے باوجود مظاہرین ملک کے کئی حصوں سے بسوں، ٹرینوں اور ٹرکوں میں سوار ہو کر کولمبو پہنچے تاکہ وہ ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے حکومت کے خلاف احتجاج کا حصہ بن سکیں۔

حالیہ ہفتوں میں عوام کا عدم اطمینان مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ رقم کی کمی کے شکار اس ملک میں ایندھن کی ترسیل روک گئی ہے اور اسی وجہ سے حکومت کو سکول اور ضروری خدمات کے ادارے بھی بند کرنا پڑے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا