امریکہ نے غزہ کے شہریوں کے لیے وزٹ ویزوں کا اجرا عارضی طور پر روک دیا

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب انتہائی دائیں بازو کی ایک شخصیت جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریب سمجھا جاتا ہے، نے شکایت کی تھی کہ زخمی فلسطینیوں کو امریکہ میں طبی علاج کی اجازت دی گئی ہے۔

16 اگست 2025 کو فلسطین کے حامی مظاہرین نیویارک میں ’غزہ کے لیے مارچ‘ میں حصہ لے رہے ہیں ( اے ایف پی)

امریکی حکومت نے ہفتے کو کہا ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کے لیے وزٹ ویزوں کا اجرا معطل کر رہی ہے۔

امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ ’غزہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے تمام وزٹ ویزوں کا اجرا اس وقت تک روک دیا گیا ہے جب تک ہم اس عمل اور طریقہ کار کا مکمل اور تفصیلی جائزہ نہیں لے لیتے جس کے تحت گذشتہ دنوں قلیل تعداد میں عارضی طبی و انسانی ویزے جاری کیے گئے۔‘

اس اعلان سے قبل انتہائی دائیں بازو کی اثر و رسوخ رکھنے والے ایک شخصیت جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریب سمجھا جاتا ہے، نے شکایت کی تھی کہ زخمی فلسطینیوں کو امریکہ میں طبی علاج کی اجازت دی گئی ہے۔

غزہ کے لوگوں کو امریکی ویزے کا اجرا معطل کرنے کا اعلان اس کے ایک روز بعد سامنے آیا جب لورا لومر، جو نسل پرستانہ سازشی نظریات کو فروغ دینے اور یہ دعویٰ کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں کہ نائن الیون کے دہشت گرد حملے اندرونی منصوبہ بندی تھے، نے سوشل میڈیا پر غصے سے بھرے متعدد پیغامات پوسٹ کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعے کو ایکس پر جاری کیے گئے متعدد پیغامات میں لومر نے محکمہ خارجہ پر زور دیا کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو ویزے دینا بند کرے، جنہیں انہوں نے ’حماس کے حامی، اخوان المسلمین سے وابستہ اور قطر سے مالی امداد یافتہ‘ قرار دیا تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

لومر کا ہدف امریکہ میں قائم فلاحی تنظیم ’ہیل فلسطین‘ تھی، جس نے گذشتہ ہفتے کہا کہ اس نے غزہ کے 11 شدید زخمی بچوں کو، ان کے تیمارداروں اور بہن بھائیوں کے ساتھ، علاج کے لیے بحفاظت امریکہ پہنچنے میں مدد دی۔

فلاحی تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ ’یہ غزہ سے زخمی بچوں کا امریکہ کے لیے سب سے بڑا واحد طبی انخلا‘ تھا۔

لومر نے ایک اور ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’یہ واقعی ناقابل قبول ہے۔ دفتر خارجہ  میں کسی کو برطرف کرنے کی ضرورت ہے جب مارکوروبیو یہ پتہ لگالیں کہ ویزوں کی منظوری کس نے دی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قطر نے ان غزہ کے لوگوں کو قطر ایئرویز کے ذریعے امریکہ پہنچایا۔ قطر واقعی ہمارے ملک کو جہادیوں سے بھر رہا ہے۔‘

لومر نے کہا کہ انہوں نے رپبلکن رہنما اور سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ٹام کاٹن کے عملے سے بات کی اور یہ بھی بتایا کہ عملہ ’یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو امریکہ آنے کے لیے ویزے کس طرح ملے۔‘

رپبلکن رکن کانگریس رینڈی فائن نے ویزا پالیسی میں تبدیلی کے اعلان کے بعد کھلے لفظوں میں لومر کی تعریف کی جو ان کے کچھ امریکی پالیسی پر اثر و رسوخ کی علامت ہے۔

فائن نے ایکس پر لکھا کہ ’اس معاملے کو بے نقاب کرنے اور مجھے اور دیگر حکام کو آگاہ کرنے پر لورا لومر  کو بڑا کریڈٹ دینا چاہیے۔ شاباش لورا۔‘

امریکہ میں قائم فلاحی تنظیم فلسطین چلڈرنز ریلیف فنڈ نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ’اس خطرناک اور غیر انسانی فیصلے کو واپس لے۔‘

تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ گذشتہ 30 برسوں میں اس نے ہزاروں فلسطینی بچوں کو علاج کے لیے امریکہ منتقل کیا۔

’طبی انخلا غزہ کے ان بچوں کے لیے زندگی کی ڈور ہے جو ورنہ غزہ میں طبی ڈھانچے کے خاتمے کے باعث ناقابل تصور تکالیف یا موت کا سامنا کریں گے۔‘

اگرچہ لومر کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں لیکن بتایا جاتا ہے کہ ان کے پاس نمایاں طاقت ہے۔ انہوں نے کئی اعلیٰ امریکی سکیورٹی حکام کی برطرفی کے لیے کامیابی سے دباؤ ڈالا جنہیں وہ ٹرمپ کا وفادار نہیں سمجھتی تھیں۔

جولائی میں لومر نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی میں ایک باوقار عہدے کے لیے بائیڈن دور کے ایک انتہائی اہل افسر کو دی گئی ملازمت کی پیشکش کو ہدف بنایا۔ پینٹاگون نے ایک دن بعد وہ پیشکش واپس لے لی۔

اپریل میں لورا کی وائٹ ہاؤس میں صدر سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے بظاہر لومر کے دباؤ پر نہایت حساس نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ ٹموتھی ہو اور ان کی نائب وینڈی نوبیل کو بھی برطرف کر دیا۔

لومر نے ہفتے کو ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’کسی مواد تیار کرنے والے یا صحافی نے ٹرمپ انتظامیہ سے بائیڈن دور کے اتنے زیادہ اہلکاروں کو برطرف نہیں کروایا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا