غزہ شہر میں شفا ہسپتال کومپلیکس کے احاطے میں لگے خیموں میں پناہ لینے والے الجزیرہ کے صحافی ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ چکے تھے۔ اپنی محصور سرزمین میں تشدد، بھوک اور بربریت پر ایک اور دن کی رپورٹنگ ختم ہو چکی تھی۔
15 منٹ بعد، اسرائیلی میزائل آسمان کو چیرتے ہوئے آئے اور خیمے کو چیتھڑوں میں بدل گئے۔
28 سالہ انس الشریف جو غزہ میں نیوز چینل کی سب سے نمایاں آوازوں میں سے ایک تھے۔ رپورٹر محمد قریقیہ اور کیمرہ مین ابراہیم ظاہر، محمد نوفل اور مومن علیوہ کے ساتھ قتل کیے گئے۔ ایک چھٹے صحافی، جو فری لانسر تھے، قریب ہی قتل ہوئے۔
شریف کو جان بوجھ کر اسرائیلیوں نے نشانہ بنایا، جنہوں نے ان پر حماس کے ایک دہشت گرد سیل کا سربراہ ہونے کا الزام لگایا، لیکن اپنے دعوے کے حق میں کوئی معتبر ثبوت پیش نہیں کیا۔ ان کے ساتھ قتل کیے گئے دیگر صحافیوں کے قتل کی کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کی گئی۔
اسی احاطے میں قریبی خیمے میں مقیم ایک فلسطینی صحافی، سعید، اس حملے کے دوران خوفناک دھماکے سے زمین پر گر گئے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میرے ہوش اڑ گئے۔ اچانک میری نظر دوبارہ اس جگہ کی طرف گئی، اور میں نے دیکھا کہ صحافیوں کے خیمے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔‘
اسی احاطے میں موجود 31 سالہ عامر فوراً باہر نکلے۔ انہوں نے ایک زخمی صحافی کو دیکھا، جس کے پاؤں اور کمر پر زخم تھے اور وہ چیخ کر مدد مانگ رہا تھا۔
عامر نے بتایا کہ انس جنہیں حملے سے قبل متعدد بار قتل کی دھمکیاں مل چکی تھیں، ان کے پیچھے زمین پر مردہ حالت میں پڑے تھے۔
ان کے ساتھی محمد قریقیہ زندہ تھے مگر آگ میں جھلس رہے تھے۔ وہاں موجود لوگوں نے فوراً شعلے بجھانے کی کوشش کی۔
عامر نے واضح طور پر گھبرائے ہوئے انداز میں مزید کہا: ’ایک شخص کرسی پر بیٹھے بیٹھے قتل کیا گیا اور دوسرا ہمارے قریب صحافیوں کے خیمے میں قتل ہوا۔ یہ سب انتہائی خوفناک تھا۔‘
بارودی دھماکے سے اڑنے والے دھات کے ٹکڑے صحافیوں کی یونین کے خیمے تک گئے، جس سے ایک چھٹے صحافی، جو الجزیرہ سے وابستہ نہیں تھے اور ایک راہ گیر کی موت ہوگئی۔
عامر نے کہا: ’یہ صحافی یہاں غزہ میں ہماری تکلیف کی آواز اور تصویر تھے اور اب وہ خود ان کہانیوں کا حصہ بن گئے ہیں جن پر وہ رپورٹنگ کر رہے تھے۔
انس کو توقع تھی کہ انہیں کسی بھی وقت نشانہ بنایا جائے گا۔ انہوں نے خود کو ملکنے والی دھمکیوں کی بنیاد پر اس امکان کو قبول کیا۔ وہ دنیا تک یہاں ہونے والے واقعات، تصویریں اور غزہ کی پٹی میں جاری قتلِ عام پہنچا رہے تھے۔ ان کے لیے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شریف اپنی موت کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکے تھے۔ ان کے ایک طویل اور دلخراش بیان میں، جو ان کے قتل کے بعد ان کے ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر پوسٹ ہوا لکھا تھا: ’یہ میری آخری خواہش اور وصیت نامہ ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔‘
پیغام یوں ختم ہوا: ’غزہ کو مت بھولنا اور معافی اور قبولیت کے لیے اپنی مخلصانہ دعاؤں میں مجھے مت بھولنا۔‘ اپنی موت سے کچھ دیر قبل انہوں نے پوسٹ کیا تھا کہ علاقے میں ’مسلسل بمباری‘ ہو رہی ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ( چی پی جے) نے گذشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ شریف کی جان کو شدید خطرہ ہے کیونکہ انہیں ’اسرائیلی فوج کی کردار کشی کی مہم‘ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور کہا گیا کہ یہ بے بنیاد الزامات ’ان کے قتل کو جائز ٹھہرانے کی کوشش‘ ہیں۔
گروپ کی مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی ڈائریکٹر سارہ قداح نے دو ہفتے قبل کہا تھا کہ الشریف کی زندگی کو لاحق خطرہ ’اب انتہائی شدید‘ ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ماہر نے بھی پہلے خبردار کیا تھا کہ غزہ سے ان کی رپورٹنگ کے باعث شریف کی جان کو خطرہ ہے، جبکہ نمائندہ خصوصی ایرین خان نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اسرائیل کے الزامات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ شریف ایک حماس عسکریت پسند تھے جو راکٹ حملوں کی رابطہ کاری کے ذمہ دار تھے۔
سی پی جے کی سی ای او جوڈی گنزبرگ نے کہا کہ تنظیم کو اب تک اسرائیل کی طرف سے شریف کے حلاف الزامات کے ’کوئی معتبر شواہد‘ نہیں ملے۔
’وہ یہ دعویٰ کئی مہینوں سے کر رہے ہیں، خاص طور پر گذشتہ چند ہفتوں میں، جب انس نے غزہ میں بھوک پر ایک رپورٹ کی تھی جس میں وہ براہِ راست نشریات کے دوران رو پڑے تھے۔ گنزبرگ نے کہا ’ہم نے بارہا اسرائیل سے ثبوت مانگے ہیں۔‘
صحافیوں کی موت پر دنیا بھر سے مذمت کی گئی۔ برطانوی وزیراعظم سر کیئر سٹارمر کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم ’غزہ میں صحافیوں کو بار بار نشانہ بنانے پر گہری تشویش‘ رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’تنازعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے، اور انہیں آزادانہ طور پر بغیر خوف کے رپورٹنگ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اسرائیل کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحافی محفوظ طریقے سے اپنا کام انجام دے سکیں۔‘
الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے اس واقعے کو ’ٹارگٹڈ اسیسینیشن‘ (منصوبہ بندی کے تحت قتل) قرار دیتے ہوئے کہا کہ شریف اور ان کے ساتھی غزہ کے اندر سے دنیا کو عوام کی تکالیف کی ’بلا فلٹر، زمینی حقائق پر مبنی کوریج‘ فراہم کرنے والی آخری آوازوں میں شامل تھے۔‘
ہیومن رائٹس واچ کے عمر شاکر نے کہا: ’فلسطینی صحافی انس الشریف اور محمد قریقیہ سمیت چار دیگر میڈیا ورکرز کا یہ دیدہ دلیری سے کیا گیا قتل اس ناقابلِ تصور خطرے کو ظاہر کرتا ہے جس کا سامنا غزہ میں فلسطینی صحافی کرتے ہیں، اور یہ اسرائیلی فوج کی عام شہریوں کی زندگی کے لیے مکمل بے حسی کا ثبوت ہے۔
’جبکہ اسرائیل اب بھی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روکے ہوئے ہے، فلسطینی صحافی اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل کشی کو دستاویزی شکل دینے اور رپورٹ کرنے میں لازمی کردار ادا کر رہے ہیں۔
اپنی غزہ میں ہونے والے مظالم کی رپورٹنگ کرنے والی آوازوں کو قتل کرنے کے بجائے اسرائیل کو چاہیے کہ ان مظالم کو ختم کرے۔‘
© The Independent