پاکستان اور سعودی عرب نے جمعے کو اسرائیل کے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے پر سخت مذمت کی ہے۔
اسرائیلی فوج وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ کے منظور شدہ نئے منصوبے کے تحت غزہ شہر کا کنٹرول سنبھالے گی۔
اس پیش رفت پر اسرائیل کے اندر اور باہر دونوں جانب سے شدید تنقید سامنے آئی۔ اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ’ہم اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ شہر کا غیر قانونی اور ناجائز کنٹرول حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
’یہ فلسطینی عوام کے خلاف پہلے سے جاری تباہ کن جنگ میں خطرناک اضافے کے مترادف ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ فوجی کارروائیوں کی یہ توسیع پہلے سے موجود انسانی بحران کو مزید بگاڑ دے گی اور خطے میں امن کے کسی بھی امکان کو ختم کر دے گی۔‘
’ہمیں اس جاری المیے کی اصل وجوہات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے: وہ ہے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا طویل، غیر قانونی قبضہ۔ جب تک یہ قبضہ برقرار رہے گا، امن ایک خواب ہی رہے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کے حق خود ارادیت اور فلسطین کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتا ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔‘
’ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی بلاجواز جارحیت کو فوری طور پر روکنے، بے گناہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور غزہ کے لوگوں تک اشد انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری مداخلت کرے۔‘
سعودی وزارت خارجہ نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب ’اسرائیلی قابض حکام کی جانب سے غزہ کی پٹی پر قبضے کے فیصلے کی سخت ترین اور پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ سعودی عرب ’برادرانہ فلسطینی عوام کے خلاف بھوک، وحشیانہ رویوں اور نسلی تطہیر کے جرائم‘ کی پر زور مذمت کرتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو تقریباً دو سال ہو چکے ہیں اور نتن یاہو پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ ایک فائر بندی کا معاہدہ کریں تاکہ 20 لاکھ سے زائد آبادی کو قحط کے دہانے سے واپس لایا جا سکے اور اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرایا جا سکے۔
فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیل کے اس منصوبے کو ’نیا جنگی جرم‘ قرار دیا جبکہ اسرائیل کے قریبی اتحادی جرمنی نے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے غزہ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی برآمد روک دی۔
وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر نے جمعے کو بتایا کہ اس منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج ’غزہ شہر پر کنٹرول سنبھالنے کی تیاری کرے گی جب کہ لڑائی کے علاقوں سے باہر عام شہریوں میں انسانی امداد تقسیم کرے گی۔‘
اس فیصلے سے قبل نتن یاہو کہہ چکے تھے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اسے حکمرانی کا حصہ نہیں بنائے گا۔
امریکی نیٹ ورک فاکس نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا ’ہم اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے‘ بلکہ ایک ’محفوظ علاقہ‘ قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسے ’ایسے عرب فریقین کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو اسے ہمارے لیے خطرہ بنائے بغیر درست طریقے سے چلائیں۔‘
اسرائیل نے 1967 سے غزہ پر قبضہ کر رکھا تھا لیکن 2005 میں اپنی فوج اور آبادکار وہاں سے نکال لیے۔
نتن یاہو کے دفتر کے مطابق سکیورٹی کابینہ کی اکثریت نے ’پانچ اصول‘ منظور کیے ہیں، جن میں علاقے میں اسلحہ نہ ہونا اور ’ایسی متبادل سول انتظامیہ کا قیام شامل ہے جو نہ حماس ہو نہ فلسطینی اتھارٹی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نئے منصوبے پر دنیا بھر سے فوری تنقید سامنے آئی، جن میں چین، ترکی، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کے بیانات شامل ہیں۔
اسرائیل میں اس منصوبے پر ردعمل ملا جلا رہا۔ اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے کابینہ کے اس اقدام کو ’ایسا المیہ قرار دیا جو کئی دیگر سانحات کو جنم دے گا۔‘
انہوں نے ایکس پر خبردار کیا کہ اس کے نتیجے میں ’یرغمالیوں کی موت، بہت سے فوجیوں کی ہلاکت، اسرائیلی ٹیکس دہندگان پر اربوں کا بوجھ اور سفارتی ناکامی‘ ہو گی۔
اسرائیلی فوج نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ غزہ کا 75 فیصد حصہ اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے، خاص طور پر سرحد کے قریب اپنے ٹھکانوں سے۔
غزہ کے رہائشی بدترین حالات کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔ چھ بچوں کی ماں 52 سالہ میسا الشانتی نے اے ایف پی کو بتایا ’وہ ہمیں کہتے ہیں جنوب میں جاؤ، پھر واپس شمال آؤ، اور اب پھر جنوب بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہم انسان ہیں، لیکن کوئی ہمیں سنتا ہے نہ دیکھتا ہے۔‘
غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار پر عالمی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک جائزے نے خبردار کیا کہ قحط پھیل رہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ اس سال علاقے میں کم از کم 99 افراد غذائی قلت سے مر چکے ہیں اور یہ اعداد و شمار غالباً اصل سے کم ہیں۔
غزہ کی پٹی میں فلسطینی این جی او نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشوا نے اے ایف پی کو بتایا کہ داخلے کے مقامات پر طویل جانچ کے عمل کی وجہ سے بہت کم ٹرک اندر آ سکتے ہیں ’یومیہ صرف 70 سے 80، وہ بھی محدود اقسام کا سامان لے کر۔‘
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے روزانہ کم از کم 600 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔