غزہ کے الاہلی ہسپتال میں کام کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر سید عرفان علی نے کہا ہے کہ غزہ میں دھماکوں کی آواز بغیر تعطل کے ہر دو منٹ بعد آتی ہے چاہے وہ ٹینک شیل ہو یا آپاچی (ہیلی کاپٹر)۔
انہوں نے یہ بات جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو سے ایک آن لائن انٹرویو میں کہی، جس دوران پس منظر میں دھماکے کی آواز بھی سنائی دی۔
کراچی میں پیدا ہونے والے اور لاہور کے علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹر عرفان نے اینستھیزیا اور درد کے علاج کی تربیت امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔
وہ کئی انسانی مشنز پر دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکے ہیں، جن میں کیمرون، بیلیز، افریقہ اور پاکستان شامل ہیں۔
غزہ کا یہ ان کا تیسرا دورہ ہے جبکہ دو بار سرحد پر روکے جانے کی وجہ سے وہ یہاں داخل نہیں ہو سکے۔
غزہ کے الاہلی ہسپتال سے انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر عرفان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں اس وقت ہر شخص زکوٰۃ کا مستحق ہے، چاہے وہ ہڈیوں کا ماہر سرجن ہو یا اینستھیزیالوجسٹ کیونکہ ’کسی کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں، سب خیموں میں رہ رہے ہیں۔
’نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ انٹرنیٹ، نہ باتھ روم۔ اگر کوئی ایک بار نہا لے تو یہ ان کے لیے بڑی نعمت ہے۔‘
انہوں نے پاکستانی عوام اور غزہ کے لوگوں کے طرز فکر کا موازنہ کرتے ہوئے کہا ’اگر پاکستانیوں پر ان کی مصیبت کا پانچ فیصد بھی آتا تو ہم دہائیاں دینے لگتے، لیکن ان کا ایمان ایک الگ درجہ رکھتا ہے۔ جو بھی ایک بار غزہ آتا ہے، واپس آنے کو بے تاب رہتا ہے کیونکہ یہاں اللہ کے چنے ہوئے لوگ ہیں۔
’ان کے پاس خود کچھ نہیں لیکن اس کے باوجود جو تھوڑا بہت ہے وہ کوشش کریں گے آپ کے ساتھ بانٹیں۔‘
غزہ میں خوراک اور بنیادی اشیا کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ ایک کلو چینی 200 امریکی ڈالر کی ہے اور اگر بینک سے کیش نکلوائیں تو یہ قیمت دوگنی ہو جاتی ہے۔’کافی 400 ڈالر فی کلو میں ملتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ غذائی قلت اس حد تک ہے کہ ایک زخمی 15 سے 16 ماہ کے بچے کا ہیموگلوبن چھ تھا، جو شدید غذائی کمی کی علامت ہے۔
الاہلی ہسپتال کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہسپتال بمباری کا نشانہ بننے کے باوجود کام کر رہا ہے مگر شدید دباؤ میں ہے۔
’ہسپتال کی صلاحیت 100 بیڈ سے کم ہے مگر یہاں پر تقریباً پانچ یا چھ سو مریض ہیں جو ان پیشنٹ ہیں۔ ان پیشنٹ کا مطلب یہی ہے کہ وہ بیچارے جس کو جہاں جگہ ملتی ہے وہ ادھر تکیہ ڈال کے یا کمبل ڈال کے نیچے لیٹ جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آئی سی یو کے بیڈ تین ہیں لیکن ظاہر ہے وہ بھی صلاحیت سے اوپر ہے۔ آپریشن تھیٹر صرف چار ہیں اور وہاں صلاحیت سے زیادہ مریض ہیں۔
’پورے غزہ میں صرف ایک سی ٹی سکین کی مشین کام کر رہی ہے اور یہ لوگ مہینے میں تقریباً تین ہزار کیٹ سکینز کر رہے ہیں۔‘
دوران انٹرویو الاہلی ہسپتال کے پاس دھماکے کی آواز بھی سنائی دی جس پر ڈاکٹر عرفان کا کہنا تھا ’یہ بغیر تعطل کے چل رہا ہے۔ ہر دو منٹ کے بعد ٹینک شیل ہیں یا آپاچی (ہیلی کاپٹر) ہے۔‘
ان کا اپنی سلامتی کے بارے میں کہنا تھا کہ ’حفاظت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جس کی جان جہاں لکھی ہے وہاں پہ آئے گی۔
’چاہے آپ پاکستان میں ہوں، انڈیا میں ہوں یا امریکہ میں یا غزہ میں ہوں۔ جب آپ کا وقت لکھا ہے تو آپ کا وقت تو آئے گا۔‘
جمعرات کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ ’کل بھی یہاں ہسپتال کے پاس دو حملے ہوئے ہیں، اس میں بہت سارے بچے تھے جو شہید ہوئے۔‘
پاکستانیوں کے لیے اپنے پیغام میں ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ ’جو شہید ہو گئے ہیں وہ جنتی ہیں اور جو شہید نہیں ہوئے وہ اپنے ہاتھ میں جنت کا ٹکٹ لیے گھوم رہے ہیں۔۔۔مگر جو سوال اللہ تعالیٰ روز قیامت کرے گا وہ آپ سے اور مجھ سے ہو گا۔
’اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے سب کچھ کر لیا ہے تو آپ کی اپنی اچھی قسمت۔ مگر ہمارے میں اگر اللہ کا تھوڑا سا بھی خوف ہے تو ہماری رات کی نیندیں اڑ جانی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے اوپر جو ظلم ہو رہا ہے اس کا کیا جواب دیں گے۔‘
انہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ فلسطینی عوام کو اپنی ذاتی ضروریات سے بڑھ کر ترجیح دیں۔ ’ان کے لیے جتنی دعا ہو سکے کریں، جتنی مدد ہو سکے کریں اور انہیں اپنے خاندان سے بھی زیادہ فوقیت دیں۔‘