بزرگ عالمی رہنماؤں کی غزہ میں ’نسل کشی‘ کی تنبیہ، نتن یاہو پر پابندی کا مطالبہ

2007 میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی جانب سے قائم کیے گئے اس غیر سرکاری عوامی شخصیات کے گروپ نے مصر میں سرحدی گزرگاہوں کا دورہ کیا۔

’دی ایلڈرز‘ — عالمی امن کے لیے سرگرم گروپ جو مرحوم نیلسن منڈیلا نے قائم کیا — کے وفود، جن میں آئرلینڈ کی سابق صدر میری رابنسن (درمیان) بھی شامل ہیں، پیر 11 اگست 2025 کو مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان رفح کراسنگ کا دورہ کر رہے ہیں۔ (اے پی)

بین الاقوامی بزرگ و تجربہ کار رہنماؤں کے گروپ ’دی ایلڈرز‘ نے منگل کو پہلی بار غزہ کی صورت حال کو ’جاری نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی امداد میں رکاوٹ پیدا کرنے کی پالیسی وہاں ’قحط‘ کو جنم دے رہی ہے۔

2007 میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی جانب سے قائم کیے گئے اس غیر سرکاری عوامی شخصیات کے گروپ نے مصر میں سرحدی گزرگاہوں کے دورے کے بعد اپنے بیان میں کہا: ’آج ہم غزہ میں زندگی بچانے والی انسانی ہمدردی کی امداد کے داخلے میں اسرائیل کی دانستہ رکاوٹ پر اپنے صدمے اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’جو ہم نے دیکھا اور سنا، اس نے ہمارے اس ذاتی یقین کو مزید پختہ کیا کہ غزہ میں نہ صرف انسانی ہاتھوں سے پیدا کردہ قحط جاری ہے بلکہ ایک جاری نسل کشی بھی ہو رہی ہے۔‘

نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم ہیلن کلارک نے دورہ کرنے کے بعد اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ مصر اور غزہ کے درمیان رفح بارڈر کراسنگ کو کھولے تاکہ امداد پہنچائی جا سکے۔

انہوں نے کہا: ’بہت سی نئی مائیں خود کو یا اپنے نومولود بچوں کو مناسب خوراک فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ سب کچھ پوری ایک نسل کی بقا کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلارک کے ساتھ اس دورے میں آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ کی سابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، میری روبنسن بھی موجود تھیں۔

انہوں نے کہا: ’بین الاقوامی رہنماؤں کے پاس یہ طاقت اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اقدامات کر کے اس اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ اس کے مظالم کو ختم کیا جا سکے۔‘

سیز فائر اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ

بیان میں کہا گیا کہ وفد نے ’خوراک اور طبی امداد کو داخلے سے روکے جانے کے شواہد دیکھے اور عینی شاہدین کے بیانات سنے کہ کس طرح فلسطینی شہریوں، بشمول بچوں، کو غزہ کے اندر امداد تک پہنچنے کی کوشش کے دوران قتل کیا گیا۔‘

انہوں نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ سیز فائر پر متفق ہوں اور غزہ میں قید باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کریں۔

لندن میں قائم اس گروپ نے ’فلسطین کے ریاستی درجے کو تسلیم کرنے‘ کا بھی مطالبہ کیا، تاہم کہا کہ ’یہ اقدام غزہ میں جاری نسل کشی اور قحط کو نہیں روکے گا۔‘

بیان میں کہا گیا: ’اسرائیل کو اسلحہ اور ہتھیاروں کے پرزے کی فراہمی فوری طور پر معطل کی جائے‘ اور وزیراعظم نتن یاہو پر پابندیاں عائد کی جائیں۔

اسرائیل کو حماس کے ساتھ 22 ماہ سے جاری لڑائی پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ محصور غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط جنم لے رہا ہے۔

نتن یاہو پر باقی قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جارحیت کو وسعت دینے کے منصوبے پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے، جو وہ اپنے اتحادیوں کی حمایت کے ساتھ یا بغیر جاری رکھنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار پر مبنی تخمینے کے مطابق حماس کے 2023 کے اسرائیل پر حملے میں 1,219 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 61,499 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، ان اعداد و شمار کو اقوام متحدہ معتبر سمجھتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا