48 کمپنیاں اسرائیلی نسل کشی سے منافع کما رہی ہیں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی ماہر فرانچسکا البانیز نے اپنی رپورٹ میں 48 کمپنیوں کا ذکر کیا ہے جو ان کے بقول فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور نسل کشی سے منافع کما رہی ہیں۔

ایک فلسطینی بچی یکم جولائی، 2025 کو وسطی غزہ کے علاقے دیر البلح میں ایک رہائشی عمارت کے ملبے کے قریب کھڑی ہے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ماہر فرانچسکا البانیز نے جمعرات کو ایک رپورٹ میں ان کمپنیوں کی مذمت کی ہے جنہوں نے، ان کے بقول، ’غیر قانونی قبضے، نسل پرستی (اپارتھائیڈ) اور اب نسل کشی پر مبنی اسرائیلی معیشت سے منافع کمایا۔‘

اس رپورٹ پر اسرائیل کا شدید ردعمل سامنے آیا اور جن کمپنیوں کے رپورٹ میں نام شامل ہیں، انہوں نے بھی اس پر اعتراضات کیے ہیں۔

البانیز نے اپنی رپورٹ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش کی، جس میں انہوں نے اسرائیلی آباد کاری کے نوآبادیاتی منصوبے کو سہارا دینے والے ’کارپوریٹ ڈھانچے‘ کی تحقیقات کیں، جو فلسطینیوں کو بے دخل اور ان کی جگہ لینے کے لیے کام کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنیوں کو ہر اس کاروباری سرگرمی اور تعلقات کو ختم کرنا چاہیے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی جرائم کا سبب بنے یا اس میں معاون ہوں۔

اس کے جواب میں جنیوا میں اسرائیلی مشن نے کہا کہ البانیز کی رپورٹ ان کے ’نفرت انگیز، جنون پر مبنی ایجنڈے‘ کا نتیجہ ہے جس کا مقصد اسرائیل کو غیر قانونی قرار دینا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ رپورٹ ’قانونی طور پر بے بنیاد، بہتان تراشی اور اختیارات کا صریح غلط استعمال‘ ہے۔

رپورٹ میں شامل کمپنیوں میں سے ایک سوئٹزرلینڈ کی کان کنی اور اجناس کی تجارت کرنے والی بڑی کمپنی گلینکور نے بھی ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔

البانیز اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق ہیں، جن پر اسرائیل نے 1967 سے قبضہ جما رکھا ہے۔

انہوں نے غزہ اور مغربی کنارے کی صورت حال کو ’قیامت خیز‘ قرار دیا اور کہا ’غزہ میں فلسطینی ناقابل تصور تکالیف جھیل رہے ہیں۔‘

البانیز نے اقوام متحدہ کی اعلیٰ انسانی حقوق کی باڈی کو بتایا کہ ہتھیار بنانے والی کمپنیوں سے لے کر سپر مارکیٹوں اور جامعات تک نے اس ’مٹانے والی مشینری‘ کو سہارا دیا۔

انسانی حقوق کی ماہر کا کہنا تھا بعض کمپنیوں نے اسرائیلی بستیوں کے لیے مالی اور بنیادی ڈھانچہ فراہم کیا۔ ’ان سب نے نسل پرستی کو مضبوط کیا اور فلسطینی زندگی کے سست، لیکن ناقابل روک تباہی کو ممکن بنایا۔‘

ان کی جانب سے رپورٹ پیش کیے جانے پر اجلاس میں تالیاں بجائی گئیں، لیکن البانیز کو ان کی مسلسل تنقید اور ’نسل کشی‘ کے طویل عرصے سے لگائے گئے الزامات کے باعث اسرائیل اور اس کے کچھ اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید، یہود دشمنی کے الزامات اور برطرفی کے مطالبات کا سامنا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی مقرر کردہ ہیں لیکن وہ اقوام متحدہ کی جانب سے بطور ادارہ بات نہیں کرتیں۔

البانیز نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے ’قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں شامل تمام 48 کمپنیوں سے رابطہ کیا تھا۔

ان میں سے 18 نے جواب دیا اور ’صرف چند ایک نے نیک نیتی سے بات کی۔ اکثر نے کہا، ’ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔‘

انہوں نے کہا ’ایسے افراد اور ادارے موجود ہیں جنہوں نے تشدد اور اموات سے منافع کمایا۔ میری رپورٹ ایک ایسے نظام کو بے نقاب کرتی ہے جو اتنا ساختی، وسیع اور گہرائی تک سرایت کیے ہوئے ہے کہ اسے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا، اسے ختم کرنا ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سب سے پہلی ذمہ داری ریاستوں کی ہے، پھر کمپنیوں کی اور پھر صارفین کی۔

’ہم ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جہاں ہم سب کسی نہ کسی طرح سے الجھے ہوئے ہیں اور ہمارے فیصلے کہیں نہ کہیں اثر ڈالتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’صارفین کے پاس اختیار ہے کہ وہ ان کمپنیوں کو جواب دہ ٹھہرائیں کیونکہ ایک لحاظ سے ہم اپنے بٹوے سے ووٹ دیتے ہیں۔‘

اے ایف پی نے رپورٹ میں شامل کئی کمپنیوں سے تبصرہ مانگا جن میں سے کچھ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

بکنگ ڈاٹ کام نے کہا ’ہمارا مشن دنیا کو سب کے لیے قابل رسائی بنانا ہے اور ہم یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ کسی کو کہاں سفر کرنا چاہیے یا نہیں۔‘

مائیکروسافٹ کی نمائندگی کرنے والی ایک کمیونیکیشنز فرم نے کہا ’ہمارے پاس بتانے کرنے کو کچھ نہیں۔‘

ڈنمارک کی شپنگ کمپنی مارسک نے البانیز کی باتوں سے اختلاف کیا اور کہا کہ وہ ’ذمہ دار کاروباری رویے کے بین الاقوامی معیارات پر عمل پیرا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد ہم نے اسرائیل کو اسلحہ یا گولہ بارود بھیجنے پر سخت پابندی عائد کر رکھی ہے۔‘

ولوو گروپ کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا ’ہم اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے فلسطین یا اسرائیل میں براہ راست آپریشن نہیں، ہم صرف ری سیلرز کے ذریعے سامان فروخت کرتے ہیں۔‘

گلینکور نے اپنے ردعمل میں کہا ’ہم اس رپورٹ میں شامل تمام الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور انہیں بے بنیاد اور قانونی جواز سے خالی سمجھتے ہیں۔‘

سات اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کی جارحیت کم از کم 57,130 افراد غزہ میں جان سے گئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ 

اسرائیل نے 1967 سے مغربی کنارے پر قبضہ جما رکھا ہے، اور اکتوبر 2023 کے بعد سے وہاں پرتشدد واقعات میں شدت آئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا