ایران - اسرائیل جاری تنازعے کے پاکستان پر اثرات

ایران-اسرائیل تنازع، داخلی مسائل اور غیر مستحکم سرحدوں کے باعث پاکستان کے لیے ایک سفارتی و سکیورٹی چیلنج ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعے کے دوران 19 جون، 2025 کو پاکستانی زائرین ایران سے واپس آتے ہوئے بلوچستان کے علاقے تفتان میں پاک-ایران سرحد عبور کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایران -اسرائیل کشیدگی میں اضافے اور امریکہ کے اس تنازعے میں شامل ہونے کے بعد اس مکمل جنگ کے پاکستان پر دور رس بظاہر سیاسی، سکیورٹی اور معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ 

پاکستان کا ایران کے ساتھ ایک پیچیدہ اور قدرے خیال ہے کہ غیر یقینی نوعیت کا تعلق ہے، جس میں باہمی شکوک و شبہات اور بداعتمادی پائی جاتی ہے۔

تاہم وقتاً فوقتاً تعاون اور کچھ مخصوص مفادات، جیسے افغانستان کے معاملے پر، ایک حد تک ہم آہنگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ 

دوسری جانب پاکستان کے خلیجی ممالک کے ساتھ دیرینہ سٹریٹجک تعلقات ہیں۔ اس پس منظر میں ایران - اسرائیل تنازعے میں مزید شدت پاکستان کو کیچ 22 کی صورت حال میں پھنسا دے گی۔

ایک طرف پاکستان ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کیے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ اس معاملے پر خاموشی ایک خطرناک نظیر قائم کرے گی۔ 

مئی میں ہونے والے چار روزہ انڈیا - پاکستان تنازعے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور سکیورٹی پر سوالات اٹھائے۔

اس نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کو اپنے کنٹرول میں لے، جو پاکستان کے تزویراتی حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔

اسی لیے پاکستان نے ایران کے پرامن سول نیوکلیئر پروگرام اور اپنے دفاع کے ناقابل تنسیخ حق کی حمایت کی ہے۔

دوسری طرف پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنے پانچ سرحدی راستے عارضی طور پر بند کر دیے تاکہ کسی ممکنہ منفی اثرات سے بچا جا سکے۔

یوں پاکستان نازک توازن برقرار رکھتے ہوئے ایک جانب ایران کی سفارتی حمایت کر رہا ہے تو دوسری جانب ممکنہ عدم استحکام کے اثرات کو اپنی سرحدوں کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے سکیورٹی اقدامات کر رہا ہے۔ 

ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بھی پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر کی 18 جون کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران اہم موضوعات میں شامل تھی۔

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے واشنگٹن کے اس تنازعے میں شامل ہونے کے بعد اسلام آباد کو انتہائی احتیاط سے آگے بڑھنا ہوگا۔ 

اسی لیے پاکستان عسکری کی بجائے سیاسی حل پر زور دے رہا ہے اور ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ثالثی کردار ادا کرنے کی سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔

چونکہ پاکستان کی افغانستان اور انڈیا کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی عروج پر ہے، اس کے لیے ایران کے ساتھ ایک غیر مستحکم سرحدی صورت حال کا متحمل ہونا ممکن نہیں۔ 

پاکستان اور ایران کے درمیان 900 کلومیٹر طویل غیر محفوظ سرحد ہے، جہاں سمگلنگ نیٹ ورکس، منشیات فروش اور ایسے عسکریت پسند گروہ سرگرم ہیں جو سرحد پار الحاق کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ 

ایران - پاکستان سرحد، جسے گولڈ سمتھ لائن بھی کہا جاتا ہے، 1870 کی دہائی کے اوائل میں برٹش انڈیا نے ایران (تب کی فارس) کے ساتھ ایک بفر زون قائم کرنے کے لیے کھینچی تھی۔ 

تاہم اس سرحدی حد بندی نے دونوں جانب رہنے والے بلوچ قبائل کو تقسیم کر دیا۔

بلوچ گروہ دونوں ممالک میں امتیازی سلوک، سیاسی محرومی اور سماجی و معاشی پسماندگی کے خلاف علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ 

ایرانی جانب، صوبہ سیستان و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ قبائل پر مشتمل نسلی و فرقہ ورانہ گروہ جیش العدل مبینہ طور پر ایران - پاکستان سرحدی علاقوں میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں سے علیحدگی پسند جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ 

اسی طرح پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں موجود سیکولر نسل پرست علیحدگی پسند گروہ جیسے بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ مبینہ طور پر ایرانی علاقے سیستان و بلوچستان میں موجود اپنے خفیہ ٹھکانوں سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اگر ایران - اسرائیل تنازع مزید شدت اختیار کرتا ہے اور ایران میں ریاستی نظم و نسق کمزور ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا علاقائی انتشار ان گروہوں کو ایران - پاکستان سرحدی علاقوں میں غیر منظم جگہوں کا فائدہ اٹھا کر پرتشدد کارروائیاں بڑھانے کی ہمت دے گا۔ 

اس صورت حال میں یہ سرحدی علاقے بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے زرخیز میدان بن سکتے ہیں، جس سے پاکستان کو اندرونی سکیورٹی کے مزید سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور چین - پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر جیش العدل ایران - اسرائیل تنازعے کو ایک ’عظیم موقعے‘ کے طور پر دیکھتی ہے۔ 

اس نے 13 جون کو اپنے ایک بیان میں ’ایران کے تمام لوگوں کے ساتھ بھائی چارے اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا‘ اور ایرانی عوام بالخصوص بلوچستان کے لوگوں اور مسلح افواج سے مزاحمت کی صفوں میں شامل ہونے کی اپیل کی۔

مزید برآں، اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کا یہ بیان کہ تل ابیب کو ایرانی فضاؤں پر مکمل غلبہ حاصل ہے، پاکستان کی سلامتی اور اس کی تزویراتی حکمت عملی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ 

اگر یہ تنازع شدت اختیار کرتا ہے تو پاکستان ہرگز نہیں چاہے گا کہ اسرائیل کا اثر و رسوخ ایرانی فضائی حدود سے بڑھتا ہوا ایران - پاکستان سرحد تک جا پہنچے۔ 

اسرائیلی فضائی طاقت کی پاکستانی سرحد تک رسائی کا مطلب یہ ہوگا کہ مشرق وسطیٰ کا سکیورٹی بحران پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

اگر اسرائیل امریکی مدد سے ایران میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کرتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کرے گا۔ 

اسلام آباد ایران میں کسی اسرائیل نواز حکومت کو برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ اس طرح پاکستان مشرقی اور مغربی دونوں اطراف سے دشمن ریاستوں کے درمیان گھر جائے گا۔

اس کے علاوہ حکومت کی تبدیلی سے پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عرب - ایران تنازعے میں پاکستان کی غیر جانب داری اور تہران کے پرامن جوہری پروگرام اور اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی محتاط سفارت کاری دراصل پاکستان کے اندرونی فرقہ وارانہ توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ 

اگر ایران میں حکومت کی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو پاکستان میں ایران نواز حلقوں اور مفاداتی گروہوں کے دباؤ کا امکان بڑھ جائے گا، جو پاکستان کو اپنی غیر جانب داری ترک کرنے اور ایران کی بھرپور سفارتی حمایت پر مجبور کر سکتے ہیں۔

ایران - اسرائیل تنازعے کی معاشی قیمت پاکستان پر پہلے ہی واضح ہو چکی ہے کیونکہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ایندھن کی قلت کا سامنا ہے۔ بلوچستان بڑی حد تک ایران سے سمگل شدہ تیل کی فراہمی پر انحصار کرتا ہے۔ 

ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں تین فیصد اضافہ پاکستان کی سست معاشی بحالی پر منفی اثر ڈالے گا کیونکہ اس سے توانائی کا بل بڑھے گا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگائی، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ کریں گی۔

ایک اور چیلنج انڈیا کے ٹرول اکاؤنٹس کی غلط معلومات کی مہمات ہیں، جنہوں نے جنرل محسن رضائی کی — جو اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) ایران کے سینیئر افسر اور قومی سلامتی کونسل کے رکن ہیں — ایک ویڈیو میں اے آئی کے ذریعے کوڈنگ کر کے یہ جھوٹا دعویٰ پیش کیا کہ اگر اسرائیل نے تہران پر ایٹم بم گرایا تو پاکستان اسرائیل پر جوہری حملہ کرے گا۔ 

یہ ویڈیو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر وائرل ہو گئی۔ بعد ازاں آزاد فیکٹ چیکرز نے ثابت کیا کہ یہ ویڈیو جعلی ہے اور مصنوعی ذہانت کے صوتی تخلیق کے آلات سے ڈیجیٹل طور پر تبدیل کی گئی۔ 

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی ان دعوؤں کو ’غیر ذمہ دارانہ، من گھڑت اور جھوٹی خبریں‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔ 

ایران کے پریس ٹی وی نے 15 جون کو محسن رضائی کے اصل بیانات شائع کیے تھے۔

خلاصہ یہ کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پاکستان کے لیے ایک سفارتی اور سکیورٹی چیلنج ہے، جو پہلے ہی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں داخلی مسائل سے دوچار ہے اور افغانستان و انڈیا کے ساتھ غیر مستحکم سرحدوں کا سامنا کر رہا ہے۔ 

ایران - پاکستان سرحد پر عدم استحکام ان معاشی فوائد کو نقصان پہنچائے گا جو بڑی مشکل سے حاصل کیے گئے ہیں لیکن ابھی تک نازک ہیں۔ 

لہٰذا پاکستان ایک طرف ایران کی سفارتی حمایت جاری رکھتے ہوئے سیاسی حل کی وکالت کرے گا تو دوسری جانب سکیورٹی اقدامات بھی کرے گا تاکہ مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کے ممکنہ اثرات سے بچا جا سکے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ