ایران پر امریکی حملے: ایران کا ممکنہ ردِ عمل کیا ہو سکتا ہے؟

اب جبکہ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی ایک اور جنگ میں امریکہ کو داخل کرنے کا اہم قدم اٹھا لیا ہے، تو سوال یہ ہے کہ اب حالات کس جانب جا سکتے ہیں؟

اس تصویر میں ایران براڈکاسٹنگ (IRIB) کی عمارت کو دکھایا گیا ہے جو چند روز قبل 19 جون 2025 کو تہران میں اسرائیلی حملے میں تباہ ہوئی (اے ایف پی)

ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے حوالے سے تذبذب کا شکار رہنے کے بعد، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آخرکار فیصلہ کر لیا۔

اتوار کی صبح، امریکی جنگی طیاروں اور آبدوزوں نے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات، نطنز، اصفہان اور فردو، پر حملے کیے۔ فردو وہ مقام ہے جہاں ایران نے ایک یورینیم افزودگی کا پلانٹ ایک پہاڑ کے اندر تقریباً 80 میٹر زیرزمین تعمیر کر رکھا ہے۔

یہ حملے ایک وسیع تر سلسلے کا حصہ ہیں، جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ کی جنگ سے شروع ہوا، اور پھر اسرائیل کے ایران نواز گروپ حزب اللہ پر حملے، اور شام میں ایران نواز اسد حکومت کے خاتمے تک جاری رہا۔

اس وقت ایران پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔ اور جب ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ایران پر بمباری کے فیصلے میں دو ہفتے لگائیں گے، تو امکان ہے کہ اسرائیل نے انہیں جلد کارروائی کے لیے قائل کر لیا ہو۔

ہم یہ بھی فرض کر سکتے ہیں کہ اسرائیل نے ٹرمپ پر زبردست دباؤ ڈالا ہو گا کہ وہ 30,000 پاؤنڈ وزنی ’بنکر بسٹر‘ بم — جسے صرف امریکی B-2 بمبار ہی گرا سکتے ہیں — استعمال کریں۔

اب جبکہ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی ایک اور جنگ میں امریکہ کو داخل کرنے کا اہم قدم اٹھا لیا ہے، تو سوال یہ ہے کہ اب حالات کس جانب جا سکتے ہیں؟ ممکنہ منظرنامے درج ذیل ہیں:

ایران کیا کرے گا؟

ایران جانتا ہے کہ وہ امریکہ کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتا، اور امریکی افواج اس کے ملک کو بھاری نقصان پہنچا سکتی ہیں، حتیٰ کہ ایرانی حکومت کا استحکام بھی خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی قیادت میں موجود مذہبی حکومت کے لیے یہ سب سے بڑی ترجیح ہے، باقی تمام معاملات اس کے تابع ہیں۔

ایران کے ممکنہ ردِعمل کا اندازہ لگانے کے لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس نے جنوری 2020 میں قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد کیا کیا۔

اس وقت ایران نے بڑے ردِعمل کا اعلان کیا تھا، لیکن صرف دو امریکی اڈوں پر میزائل داغے تھے، جن میں کوئی امریکی ہلاکت نہیں ہوئی تھی اور نقصان بھی معمولی ہوا تھا۔ اس علامتی حملے کے بعد ایران نے معاملہ ختم قرار دے دیا تھا۔

نئے امریکی حملوں پر بھی ایران کا ردِعمل غالباً اسی نوعیت کا ہو گا۔ وہ امریکی اڈوں پر جوابی حملے سے گریز کرے گا، کیونکہ ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ:

’ایران، جو مشرق وسطیٰ کا غنڈہ بنا ہوا ہے، اب امن کرے۔ اگر ایسا نہ کیا تو مستقبل میں حملے بہت زیادہ اور آسان ہوں گے۔‘

یہ بھی واضح نہیں کہ ایران یہ جنگ کب تک جاری رکھ سکے گا۔ اس کا انحصار بڑی حد تک اس کے پاس باقی بچنے والے بیلسٹک میزائلوں اور لانچروں پر ہے۔

مختلف اندازوں کے مطابق جنگ کے آغاز پر ایران کے پاس 2000 بیلسٹک میزائل تھے جو اسرائیل تک مار کر سکتے تھے۔ بعض تخمینے کہتے ہیں کہ ان میں سے 700 داغے جا چکے ہیں، بعض کے مطابق 400۔ جو بھی عدد ہو، ایران کا ذخیرہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔

اسرائیل اب تک ایران کے تقریباً ایک تہائی میزائل لانچرز تباہ کر چکا ہے۔ اگر وہ باقی لانچرز بھی ختم کر دے تو ایران کے پاس جوابی حملے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔

ایران کا پیچھے ہٹنا

امریکہ کے براہِ راست مداخلت سے پہلے ایران کہہ چکا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن اسرائیل کے حملے جاری رہنے تک نہیں۔

ایک منظرنامہ یہ ہو سکتا ہے کہ اب فریقین میں کوئی سمجھوتہ طے پا جائے، جس کے تحت اسرائیل جنگ بندی کا اعلان کرے اور ایران اور امریکہ تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر راضی ہو جائیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات پر اعتماد نہیں کرتے اور جب تک ایران کی تمام ایٹمی تنصیبات مکمل طور پر تباہ نہ کر دی جائیں، وہ فوجی کارروائیاں نہیں روکیں گے۔

وہ ایران کے تیل اور گیس کے ذخائر اور تنصیبات پر بھی حملے کر رہے ہیں تاکہ حکومت پر مزید دباؤ ڈالا جا سکے۔

دوسری جانب، ایرانی حکومت اپنی ساکھ بچانے کے معاملے میں حد درجہ ضدی رہی ہے۔ 1980 کی دہائی میں ایران-عراق جنگ کے دوران بھی وہ شدید دباؤ میں رہی، لیکن تب تک ہتھیار ڈالنے کا نہ سوچا جب تک کہ امریکی میزائل نے غلطی سے ایک ایرانی مسافر طیارہ مار گرایا، جس میں 290 افراد مارے گئے۔

تب ایران نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی قبول کی۔ حالانکہ وہ آٹھ سالہ جنگ میں دس لاکھ ہلاکتوں کے بعد تھی، اور اس وقت کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے اسے ’زہر کا گھونٹ‘ قرار دیا تھا۔

موجودہ حالات میں، سپریم لیڈر خامنہ ای حکومت بچانے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، لیکن یہ ان کے لیے ایک بڑی پسپائی ہو گی، اور وہ ماضی میں حد درجہ ضدی ثابت ہوئے ہیں۔

ایرانی حکومت غیر مقبول ضرور ہے، لیکن ایرانی عوام، میرے تجربے کے مطابق، اپنی سرزمین سے شدید محبت کرتے ہیں، خواہ وہ حکومت سے ناخوش ہی کیوں نہ ہوں۔

نو کروڑ آبادی والے ملک میں عوامی رائے کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن بہت سے ایرانی شاید امریکہ یا اسرائیل کے حکم پر کچھ کرنے کے بجائے لڑنا چاہیں گے۔

نتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران میں عوامی بغاوت کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن یاد رہے کہ آمریت کے خاتمے کا مطلب لازمی طور پر جمہوریت نہیں، بلکہ افراتفری بھی ہو سکتا ہے۔

ایران میں مختلف قومیتیں آباد ہیں اور اگر موجودہ نظام گر گیا تو یہ طے کرنا کہ اس کی جگہ کیا آئے، ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔

فی الحال، امکان ہے کہ حکومت خود کو سنبھال لے گی۔ حتیٰ کہ اگر خامنہ ای اچانک وفات پا بھی جائیں، تو نظام فوری طور پر کسی جانشین کا اعلان کر دے گا۔

اگرچہ ان کے جانشین کا ابھی علم نہیں، لیکن حکومت نے اس کے لیے برسوں سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

اعلیٰ عہدے دار بھی جانتے ہیں کہ اگر جانشینی کا بحران پیدا ہوا تو پورا نظام خطرے میں آ جائے گا۔

ایران پر امریکی حملے امریکہ میں بھی نامقبول 

17  جون کو جاری ہونے والے The Economist اور YouGov کے تازہ سروے کے مطابق، 60 فیصد امریکی اسرائیل-ایران تنازع میں شمولیت کے خلاف ہیں، جبکہ صرف 16 فیصد حمایت کرتے ہیں۔ رپبلکن ووٹرز میں بھی 53 فیصد مخالف ہیں۔

لہٰذا، یہ حملے اس وقت امریکی عوام میں زیادہ مقبول اقدام نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم، اگر یہ کارروائی جنگ کا جلد اختتام کروا دے، تو ٹرمپ کو عوامی سطح پر پذیرائی مل سکتی ہے۔

اگر امریکہ کو دوبارہ حملے کرنے پڑے، یا خطے میں امریکی مفادات پر سنگین حملے ہوئے، تو امریکی عوام کا ردعمل منفی ہو سکتا ہے۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا امریکی حملے میں ایران کا 400 کلوگرام 60 فیصد افزودہ یورینیم تباہ ہو گیا؟

اگر یہ محفوظ رہا، اور سینٹری فیوجز کو زیادہ نقصان نہ پہنچا، تو ایران اپنا جوہری پروگرام جلد بحال کر سکتا ہے۔

بلکہ یوں ہو سکتا ہے کہ وہ اس یورینیم کو 90 فیصد افزودگی تک لے جائے، یعنی ہتھیار بنانے کے قابل۔

نوٹ: یہ تحریر دی کنوریشن سے لی گئی ہے جس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت کیا گیا ہے۔ اس تحریر کے مصنف ایئن پارمیٹر آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں مڈل ایسٹرن سٹڈیز کے ریسرچ سکالر ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر