مجھ سے پچھلے چند دنوں میں با رہا یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا مجھے کوئی ایسا وقت یاد آتا ہے جو آج کی طرح خطرناک محسوس ہوا ہو؟ میرا جواب ہے: ہاں، اکتوبر 1962 کا کیوبا میزائل بحران۔
وہ پوری دنیا کے لیے خوفناک لمحہ تھا، جب دو بڑی عالمی طاقتیں یعنی امریکہ اور سوویت یونین آمنے سامنے آ گئی تھیں۔ میں خود سخت خوفزدہ تھا۔ 13 دنوں تک پوری دنیا سانس روکے کھڑی رہی اور بالآخر یہ بحران سفارتی ذرائع سے ختم ہوا۔
اور آج بھی سوال یہی ہے اور وہ خطرہ بھی کہ کہیں یہ معاملہ ایٹمی تباہی کی صورت اختیار نہ کر لے، جس کا خوف سب کے دل میں ہے۔ جنگ کا مطلب ہوتا ہے انتشار۔ جنگیں شاذ ہی منصوبے کے مطابق چلتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کبھار کسی نچلے درجے کے کمانڈر کی معمولی سی غلطی پورے خطے کو آگ میں جھونک سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کے اس تصادم کے بارے میں کچھ بھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔
کیا پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک ایران کی اسرائیل کے خلاف اس جنگ میں عملی طور پر حمایت کر سکتے ہیں، جیسا کہ کل بعض رپورٹس میں کہا گیا؟
صاف بات یہ ہے کہ مجھے نہ پاکستان، نہ خطے کے دیگر بڑے مسلم ممالک اور نہ ہی روس یا چین کی اس جنگ میں فوجی مداخلت کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ پیر کے دن یہ بات سامنے آئی تھی کہ اگر اسرائیل ایران پر ایٹمی حملہ کرے تو پاکستان اپنے جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے، مگر یہ بیان کسی سرکاری پاکستانی ترجمان کا نہیں، بلکہ تہران میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے جنرل محسن رضائی کا ایک ٹی وی انٹرویو تھا۔
اس دعوے کی کسی بھی پاکستانی سرکاری ذریعے نے تصدیق نہیں کی۔ ویسے بھی اسرائیل کے ایران پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تقریباً طے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسی کسی کارروائی کو ویٹو کر دیں گے اور ویسے بھی اسرائیل کو اس جنگ میں اتنی برتری حاصل ہے کہ اسے ایسی حرکت کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ البتہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ضرور ہے، لیکن ابھی تک اس نے ایسا نہیں کیا۔
اتوار کو ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے اپنی کابینہ سے کہا کہ ’ہم مسلم اور خطے کے ممالک سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ صہیونی جارحیت اور اس کے حامیوں کے خلاف واضح، سخت اور مؤثر موقف اپنائیں‘۔
لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ اسرائیل کی جانب سے کوئی انتہائی پاگل پن کا مظاہرہ ہوا بھی، تو کیا پاکستان ساتھ دے گا؟ تقریباً ناممکن ہے۔ پاکستان ایران کا ہمسایہ ضرور ہے، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور پاکستانی عسکری قیادت کا ایران کی حمایت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنا حماقت ہوگی۔ امریکہ، جو پاکستان کا بڑا مالی معاون ہے، اس کی سخت مخالفت کرے گا، اور چین، جو پاکستان کا سب سے اہم اور پرانا اتحادی ہے، وہ بھی اس کا حامی نہیں ہوگا۔
بدقسمتی سے ایران کے مشکلات میں گھرے صدر کے لیے صورت حال یہ ہے کہ اس کے روایتی اتحادی جیسے روس اور چین اب تک محض رسمی بیانات دے کر اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں۔ خطے کے کچھ ممالک نے تشویش کا اظہار اور تحمل کی اپیل ضرور کی ہے، لیکن عملی اقدام کوئی نہیں ہوا۔ لبنان میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نعیم قاسم نے بھی ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے کہ ’ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے حقوق اور موقف کی حمایت کرتے ہیں اور جو اقدامات وہ کرے، ان میں اس کے ساتھ ہیں۔‘
مگر میری نظر میں جو بات سب سے زیادہ چونکا دینے والی ہے، وہ یہ کہ ایران کی حمایت میں اب تک کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ حزب اللہ کھل کر اس جنگ میں نہیں کودنا چاہتی۔
گذشتہ دسمبر میں معزول ہونے سے پہلے تک شامی صدر بشار الاسد ایران کے بڑے اتحادی ثابت ہو سکتے تھے، لیکن اب ان کی حکومت نہیں رہی۔ حماس بھی پہلے جیسی طاقتور نہیں رہی۔ درحقیقت، اب تک صرف یمن کے حوثی ہیں جو ایران کی حمایت میں عسکری کارروائی کے لیے تیار نظر آتے ہیں، البتہ ان کی کارروائیاں بھی زیادہ تر بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بحری جہاز رانی متاثر کر کے تیل کی قیمتیں بڑھانے تک محدود ہوں گی
سوال یہ بھی ہے کہ برطانیہ کہاں کہاں اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے؟ برطانیہ کے دو اہم فوجی اڈے سائپرس میں اس کے ’خودمختار علاقوں‘ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بحرین میں برطانوی نیول سپورٹ بیس ہے۔ سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات میں بھی برطانیہ کی فوجی موجودگی ہے۔ ایران یا اس کے پراکسی ان اڈوں کو نشانہ بنا کر برطانیہ کو براہِ راست جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ان تمام اڈوں کی سکیورٹی سخت کرنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جا رہے ہوں گے۔ ویسے بھی ایران کو ایسے حملے سے کوئی بڑا فائدہ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔
ایران کی ایک اور دلچسپ خصوصیت (جس کی میں خود بھی لت میں مبتلا ہوں اور جس کا کوئی علاج نہیں) یہ ہے کہ اگرچہ جو لوگ حد سے بڑھ کر بولیں، وہ تہران کی بدنام زمانہ ایوین جیل میں جا سکتے ہیں، لیکن پھر بھی وہاں کے اخبارات اور بہادر بلاگرز مختلف نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں ایرانی اخبارات میں ہمیشہ کی طرح ’صہیونی ریاست‘ کا لفظ استعمال ہو رہا ہے، کیونکہ سخت گیر حلقے ’اسرائیل‘ کا لفظ زبان پر نہیں لاتے اور اس کے اتحادیوں (امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ) کی مذمت کی جا رہی ہے، وہیں ایک دلچسپ بات یہ ہو رہی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک کھلی عوامی بحث بھی جاری ہے کہ آیا ایران کو امریکہ سے نئے ایٹمی معاہدے کے لیے مذاکرات کرنے چاہییں یا نہیں۔ معتدل اخبار ارمانِ ملی کے مطابق، امریکہ سے بات چیت ’طاقت کی علامت‘ ہوگی، جب کہ قدامت پسند اخبار جمہوری اسلامی نے بھی کہا کہ مذاکرات جاری رکھے جانے چاہییں۔
البتہ، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات یا معاہدے کی کوئی عملی صورت نکلے گی یا نہیں، یہ ابھی مشکوک ہے۔ جو بات موجودہ تنازعے کو 1962 کے بحران سے مختلف اور زیادہ خطرناک بناتی ہے، وہ یہ کہ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کو مٹانے کے درپے نہیں تھے۔
جبکہ 1990 کی دہائی سے ایرانی مذہبی اور عسکری قیادت نے اسرائیل کے وجود سے ہی نفرت اور دشمنی کا جنون پال رکھا ہے۔ اسرائیل کا 1948 میں قیام متنازع ضرور تھا، مگر دنیا میں اور بھی بہت سی متنازع ریاستیں وجود میں آئیں۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کو ویسے ہی تسلیم کیا ہے جیسے ایران کو۔ یہ ایرانی عوام کے لیے المیہ ہے کہ وہ آج اس احمقانہ ضد کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں، جو ان کے سپریم لیڈر نے پال رکھی ہے کہ اقوامِ متحدہ کا ایک رکن ملک وجود ہی نہ رکھے۔
اسرائیل ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے منصوبے کو کچھ عرصے کے لیے مؤخر تو کر سکتا ہے، مگر صرف فوجی کارروائی سے ایران کے ایٹمی سائنس دانوں کا علم اور مہارت ختم نہیں کی جا سکتی۔ اس کا واحد حل ایک نیا جامع ایٹمی معاہدہ اور آئی اے ای اے کی سخت نگرانی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا درست ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی سے بھی بہتر کوئی مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ ایرانی عوام کے لیے ایک سنجیدہ معاہدہ ہی ان کے اندھے حکمرانوں کے پیدا کردہ تباہ کن چکر سے نکلنے کا راستہ ہے۔
المیہ یہ ہے کہ جس طرح کا معاہدہ آج ٹرمپ چاہتے ہیں، وہ 2015 میں امریکہ سمیت تمام فریق طے کر چکے تھے — مشترکہ جامع منصوبۂ عمل (Joint Comprehensive Plan of Action)۔ 2018 میں بن یامین نتن یاہو نے مبینہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو قائل کیا کہ وہ اس معاہدے سے نکل جائیں اور پھر ایرانی سخت گیر عناصر، جو ہمیشہ سے معاہدے کے مخالف تھے، نے یورینیم کو ایٹمی بم کی سطح تک افزودہ کرنا شروع کر دیا۔
جیک سٹرا ٹونی بلیئر اور گولڈن براؤن کے دور میں برطانیہ کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ وہ کتاب ’دی انگلش جاب: انڈرسٹینڈنگ ایران اینڈ وائی اِٹ ڈس ٹرسٹس برطانیہ‘ کے مصنف ہیں۔
© The Independent