ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید فضائی جنگ کے دوران بیشتر عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار متوقع تھا مگر ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے باوجود انڈیا کی مسلسل خاموشی نے سب کو حیران کر دیا ہے۔
خاص طور سے انڈیا کی سوا ارب آبادی کو، جو اب تک ایران اور انڈیا کے درمیان گہرے روابط کا دم بھرتی تھی اور توقع کر رہی تھی کہ انڈیا اسرائیلی جارحیت کی کم از کم مذمت کرے گا۔
عوامی حلقوں اور اپوزیشن کو اُس وقت مزید حیرانی ہوئی جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور شنگھائی تعاون تنظیم نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی اپیل اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی، مگر انڈیا نے خود کو ان بیانات سے دور رکھا۔
کیا یہ سوچ محض ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہے یا پھر انڈیا کی مغربی ایشیا سے متعلق سفارتی سمت تبدیل ہو گئی ہے؟
اس سوال کے پس منظر میں انڈیا کی بعض اپوزیشن جماعتوں نے سرکار کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطینی ریاست کے فوری تسلیم کرنے کی حمایت میں بیانات جاری کیے جن میں کانگریس، بائیں بازو کی جماعتیں اور جنوبی انڈیا کے دو وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔
کانگریس نے اپنے بیان میں مودی حکومت پر زور دیا کہ وہ خاموش رہنے کے بجائے عالمی قوانین کا لحاظ رکھتے ہوئے اسرائیل کی ایران پر جنگ تھوپنے کے خلاف واضح موقف اختیار کرے، جس نے اس پورے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔
اسرائیل نے 13 جون کو تہران پر فضائی حملہ کر کے اس کی فوجی قیادت، جوہری سائنس دانوں اور سراغ رساں ادارے سے وابستہ بیشتر اہلکاروں کو قتل کر دیا تھا، جس نے نہ صرف ایران بلکہ اسلامی دنیا کو ایک دہشت میں مبتلا کر دیا۔
بیشتر ملکوں نے اسرائیل کی اس بربریت کو دہشت گردی سے تعبیر کیا البتہ انڈیا کی حکومت نے ایک آدھ ٹویٹ میں نتن یاہو سے فون پر بات کرنے کی صرف اطلاع دی۔
گو کہ وزیراعظم مودی اور اسرائیلی رہنما نتن یاہو میں گہری دوستی کے سبب اسرائیل اور انڈیا میں فوجی، انٹیلی جنس کی شراکت داری، تجارتی اور ثقافتی رشتے گہرے ہو گئے ہیں مگر انڈین سرکار کی فلسطین کی حمایت اور ایران سے دوستی کے بارے میں ہمیشہ واضح موقف رہا ہے، جو اب لگتا ہے کہ بالکل بدل گیا ہے۔
اپوزیشن کے بعض لیڈروں نے سوال اٹھایا کہ اگر انڈیا نے فلسطین کی مملکت کے قیام یا ایران سے دوری کے بارے میں موقف تبدیل کر دیا ہے تو اپوزیشن کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا یا پھر جمہوری ملک میں اپوزیشن کی کوئی وقعت ہی نہیں رہی ہے؟
بعض رہنماؤں نے اس سوچ کو آمرانہ قرار دیا۔ کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے کہا کہ انڈیا کو ایران کی سالمیت کے خلاف جنگ پر سخت موقف اختیار کرنا چاہیے اور اپنا سفارتی اثر رسوخ استعمال کرکے جنگ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
کانگریس کے سربراہ ملک ارجن کھرگے کے غزہ میں جنگ بندی اور ایران کے ساتھ کھڑے نہ رہنے پر سخت بیان کے باوجود بی جے پی کی سرکار نے کوئی بیان نہیں دیا بلکہ وزیراعظم مودی یونان کے قبرص اور پھر کینیڈا جا کر جی سیون گروپ میں بحثیت مبصر شامل رہے، جہاں ان کی ٹرمپ کے سوا کئی یورپی سربراہوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
مودی نے پھر بھی ایران اسرائیل جنگ پر کوئی بات نہیں کی۔
سفارتی امور کے بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مودی پارلیمان کو بنا اعتماد میں لیے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر کے اسے مغرب کے قریب لانے پر بضد ہیں حالانکہ وہ پہلے برکس یا ایس سی او میں ایک اہم رکن کے طور پر کلیدی کردار نبھا رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیال ہے کہ انہوں نے ان ملکوں سے دوری اس وقت اختیار کی جب برکس نے ڈالر کے مقابلے میں مختلف ملکوں کی کرنسی میں تجارتی لین دین پر زور دیا یا جب شنگھائی گروہ نے اسرائیل کے خلاف شدید بیان جاری کیا اور انہوں نے اس سے انڈیا کو دور رکھا۔
ممبئی میں مقیم سفارتی امور کے تجزیہ نگار رومن تاپن کہتے ہیں کہ ’ایک جانب امریکہ اور یورپی ملکوں کے بیچ میں اندرونی طور پر ایک نئی کشکمش شروع ہو چکی ہے، جب صدر ٹرمپ نے تجارتی ٹیکسوں اور نیٹو کو چلانے کے لیے ان ملکوں کو رقومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب چین، روس، افغانستان، پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے قریب آ کر ایک نئے بلاک میں متحد ہو رہے ہیں اور جس میں انڈیا اچھی خاصی پوزیشن کے ساتھ پڑوسی ملکوں کے درمیان رہ کر اپنی سرحدیں مظبوط کرسکتا تھا مگر مغرب کا انتخاب کرکے وہ پھر اس سامراجی طاقت کے نئے روپ میں پھنستا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صلاح اسرائیل کی ہو گی جو خود مغرب کی گود میں بیٹھا ہے۔‘
لگتا ہے کہ چند انتہا پسند عالمی رہنماؤں کا ایک گروپ بن رہا ہے اور انڈیا گروپ میں رہ کر داخلی اور خارجہ پالیسی ترتیب دینے لگا ہے۔
جس ایران نے عالمی فورمز میں ہمیشہ انڈیا کی حمایت کی ہے، وہ چاہے اس کا ایٹمی دھماکہ ہو یا او آئی سی میں جموں و کشمیر کا مسئلہ ہو، گو کہ ایران، انڈیا پاکستان کو باہمی طور مسئلہ کشمیر حل کرنے کی صلاح دیتا ہے۔
ایران نے انڈیا کی وسطی ایشیا اور خلیجی ملکوں تک کی رسائی کی خاطر پاکستان کے گوادر کے مقابلے میں چابہار بندرگاہ تعمیر کی، جس کی بدولت ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات متاثر ہو گئے مگر جب ایران کو انڈیا کی ضرورت پڑی تو انڈیا نے ساتھ چھوڑ دیا، جو تہران سے زیادہ نئی دہلی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
انڈیا کو مغربی ایشیا سے 80 فیصد تیل کی برآمدات ہوتی ہیں، جس میں ایران اور خلیجی ممالک سر فہرست ہیں، حالیہ تصادم سے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس کی پیداوار کم ہونے کے امکانات بھی بتائے جا رہے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر انڈیا پر پڑے گا جو اس کا بڑا خریدار ہے، پھر انڈیا چھ ارب ڈالر کا مقروض بھی ہے، جو اس نے ایران سے قرضہ لیا ہے۔
ایران اور انڈیا کے بیچ اس وقت تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے برابر تجارت ہورہی ہے، جس کے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
بقول عالمی تھنک ٹینکس، ایران اور انڈیا کے درمیان دوری کا فائدہ پاکستان کو پہنچ رہا ہے اور اس پورے خطے میں کچھ عرصے سے پاکستان کی پوزیشن دوبارہ مستحکم ہو رہی ہے۔
رومن تاپن کہتے ہیں کہ ’حالیہ دنوں میں افغانستان، چین اور پاکستان کے بیچ سہہ فریقی سمجھوتہ، چین اور پاکستان کی ایران کی کھل کر حمایت سے انڈیا خطے میں تنہا لگ رہا ہے، جس کا سہرا وزیراعظم کے سر ہے، جنہوں نے عین اس وقت اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کردی ہے جب دنیا میں نئے بلاک بن رہے ہیں، جمہوری ملکوں میں ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے، الٹرا نیشنلزم کی تحریک کا غلبہ ہے، ایسے میں انڈیا کو مغرب سے زیادہ پڑوسی ملکوں کے بہتر رشتوں کی ضرورت تھی مگر بی جے پی کی حکومت نے انڈیا کو پہلے جنوبی ایشیا اور اب مغربی ایشیا سے سفارتی طور پر تنہا کردیا ہے۔‘
اپوزیشن جماعتیں کافی عرصے سے پارلیمان کے خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر رہی ہیں جس میں آپریشن سندور سے لے کر غزہ اور ایران پر جنگ بندی کے معاملات پر سرکار کی پالیسی پر بحث کی جانی مقصود ہو گی مگر بی جے پی کی سرکار نے اپنے وقت پر جولائی میں پارلیمان کے مون سون سیشن بلانے کا اعلان کیا ہے، جو بقول تجزیہ نگار ہنگامہ خیز ہو گا۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔