ہو گئی جنگ؟ امن کب ہو گا؟

جب انڈیا پاکستان کے سرحدی آسمان پر جنگی میزائل اور لڑاکا طیاروں کی ویڈیوز وائرل ہورہی تھیں تو کشمیری سوچ رہے تھے کہ دونوں ملکوں کے بیچ مسلسل جنگوں کا خمیازہ وہ کیوں بھگت رہے ہیں۔

سات مئی 2025 کو جموں کے سرحدی علاقے جیورا فارم سے لوگ محفوظ مقام کی طرف منتقل ہو رہے ہیں (اے ایف پی)

یاد ہے جب فلسطینی شاعر اور مصنف محمود درویش نے لکھا تھا کہ ’جنگ ختم ہو گی، لیڈر ہاتھ ملائیں گے، بزرگ خاتون اپنے شہید بیٹے کا انتظار کرے گی، دوشیزہ اپنے محبوب کے لیے سرراہ بیٹھے گی، بچے والد کو دیکھنے کے لیے ترسیں گے، مجھے نہیں معلوم میری زمین کس نے بیچی مگر مجھے معلوم ہے کہ اس کی قیمت کون چکا رہا ہے۔‘

جب چھ اور سات مئی کی درمیانی شب کو انڈیا پاکستان کے سرحدی آسمان پر جنگی میزائلوں اور لڑاکا طیاروں کی ویڈیوز وائرل ہورہی تھیں تو ہر کشمیری محمود درویش کی کیفیت سے گزر رہا تھا اور خاموش رہ کر دل کے آنسو رو رہا تھا کہ دونوں ملکوں کے بیچ مسلسل تصادم اور جنگوں کا خمیازہ وہ کیوں بھگت رہا ہے۔

کیا برصغیر کے بٹوارے کے دوران 10 لاکھ اموات اور 20 لاکھ بےگھر ہونے والوں کی آہوں سے اب تک دل نہیں بھرا کہ یہ دشمنی، تصادم اور خون ریزی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

سات دہائیوں کے بعد بھی ہر کشمیری کے دل سے یہ آہ کیوں نکل رہی ہے کہ کیا وہ کبھی اس خطے میں امن بھی دیکھے گا یا پھر اپنے دادا اور پردادا کی طرح یہ حسرت لیے اس دنیا سے چلا جائے گا؟

کشمیر کی چار نسلیں ان جنگوں اور کشیدگی کے ہتھے چڑھی ہیں اور ابھی کتنوں کی جان لینی ہو گی؟

یقین کریں جموں و کشمیر کے عوام کو دونوں ملکوں کی فوجی صلاحتیوں کی نمائش سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا دن چاہتے ہیں جب ان کے گھر نہیں اجڑتے، جب انہیں رات کے اندھیرے میں بھاگنا نہ پڑے، جب انہیں بچوں کی لاشیں لے کر ہسپتالوں کے باہر بیٹھنا نہ پڑے۔

بار بار کے ایسے مناظر، حادثات اور تصادم نے ان کی سکت چھین لی ہے اور وہ اس خون خرابے کو دیکھنے کی قوت برداشت سے محروم ہو چکے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حیدرآباد انڈیا کے جنگی اور دفاعی امور کے ماہر راکیش شرما کہتے ہیں کہ ’جب سیاسی رہنما یا فوجی آمر اپنی انا کی تسکین کے لیے قوم کی سلامتی کو داؤ پر لگاتے ہیں تو ایسے خطوں میں تناؤ اور ٹکراؤ عوام کی تقدیر بن جاتی ہے، حالات نے نیا رخ اختیار کیا ہے، پہلے حکمران جنگ کو روکنے کی کوششیں کرتے تھے اب وہ بھڑکانے پر لگے ہیں افریقہ، مشرق وسطی یا ہمارا برصغیر بھی اسی کیفیت سے دوچارہے اور تقریبا دو ارب آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیا ان حالات سے گزر رہا ہے۔‘

شب کی تصادم آرائی کے مناظر کے وقت کشمیریوں پر سوچ غالب تھی کہ یہ خون خرابہ کب بند ہو گا؟ کیا دونوں ملک اپنے مسائل حل کر کے کبھی اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں گے یا کیا یہ جنگ کشمیر سے باہر لے جائیں گے؟

ظاہر ہے یہ خواب دیکھنا مہنگا ہے، اس کا اندازہ صرف ایک کشمیری ہی کر سکتا ہے، میڈیا والے نہیں جو خوبصورت سٹوڈیوز میں بیٹھ کر جنگی جنون ابھارنے پر بضد ہیں، ٹی آر پی کے حصول کے لیے جانی اور مالی نقصان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے اور جنونی حکمران ان کی تسلی کے لیے جنگوں میں کود بھی جاتے ہیں۔

شاید اس کا ادراک جنونیوں کو نہیں ہے کہ اوڑی سیکٹر میں دوران شب جب شدید گولے پڑ رہے تھے تو اکبر خان (ان کی سلامتی کی خاطر نام بدل دیا گیا ہے) تیسری بار اپنے افراد خانہ کے ساتھ رات کی تاریکی میں بغیر چپل پہنے ہوئے بھاگ رہا تھا۔

اس سے قبل دو جنگوں میں وہ اپنے والد کے ہمراہ اوڑی چھوڑ چکا ہے، مگر گھر بسانے کی چاہت میں بار بار واپس آئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی موت کسی گولے سے ہی ہونی ہے۔ اس بار اس کا گھر تیسری بار تباہ ہو چکا ہے اور اس نے سنگرامہ کے ایک گاوں میں اب پناہ لے رکھی ہے۔

کپوارہ کی سرحد پر رہنے والا نوجوان علی پوری رات سوشل میڈیا پر شدید گولہ باری کی خبریں دیتے رہا، ویڈیوز بھیجتا رہے اور پل پل ہونے والے دھماکوں کی آوازیں سناتا رہا۔ گھر اور دوکان سے دور اپنے چچا کے گھر میں پناہ لے رکھی تھی جو رات کے آخری پہر حملوں کی زد میں آ گیا اور پھر ان کا فون بند ہوا۔

وہ زندہ ہے یا ملبے کے نیچے دبا ہے، ابھی تک کوئی پتہ نہیں۔

ایک جانب برصغیر کا آسمان فضائی تصادم سے لرز رہا تھا تو دوسری جانب میڈیا چینلوں کے وار رومز ایک دوسرے کو فتح کرنے کے اعلانات کر رہے تھے۔

کس نے کس کے ٹھکانوں کو اڑا دیا، کس کی عمارت تباہ کر دی گئی اور کتنے طیاروں کو نشانہ بنایا گیا، کشمیری اس سے غافل تھے کیونکہ جن کے گھر جل رہے ہوں، پناہ کی تلاش میں ہوں یا لاشے گن رہے ہوں تو وہاں کس کی جیت اور کس کی ہار کوئی معنی نہیں رکھتا۔

پھر جب جھوٹ اور سچ کے بیچ کوئی فرق نہ رہے تو کون کس پر اعتبار کرے؟

چھ اور سات مئی کو فرانس اور چین کی ٹیکنالوجی کا بھرپور مظاہرہ میڈیا پر دیکھا۔ جو نہیں دکھایا گیا، وہ ان لوگوں کی دیرینہ آرزو تھی جو امن اور سکون کا ایک لمحہ چاہتے ہیں۔

ایک روزنامے کے ایڈیٹر کے مطابق ’کشمیریوں نے آج بھی دبے لفظوں میں بس ایک ہی امید جتائی کہ اس سے پہلے یہ تصادم اس خطے کو بنجر بنا دے، اس کو بند کرنا ہو گا۔ اس ٹکراؤ کا کیا حاصل جب دونوں جانب اس سے جانی اور مالی نقصان ہی ہو گا مگر کشمیریوں کہیں سنوائی نہیں ہے، تو وہ بس ہاتھ ملتے رہتے ہیں، بچی کچھی زندگی کو بچانے کی دوڑ میں ہیں اور سنہ 47 کے بعد چوتھی نسل کو آگ کے گولوں سے متعارف ہوتے دیکھ رہے ہیں۔‘

مجھے یاد ہے جب سنہ 71 میں بنگلہ دیش کی جنگ ہو رہی تھی تو ہم سب کشمیری بچوں کو گھروں کے تہہ خانوں میں بند کر دیا جاتا تھا حالانکہ جنگ ہزاروں میل دور ہو رہی تھی لیکن ہمارے گھر کے اوپر سے کئی لڑاکا طیارے بدستور گشت کر رہے ہوتے تھے۔ بیشتر لوگ کھڑکیوں سے جھانک کر ان کی نشاندہی کر کے دعائیں کرتے رہتے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس ملک کے طیارے تھے اور کس کے لیے دعائیں ہو رہی تھیں، البتہ افراد خانہ کے آنسووں سے لبریز آنکھیں بہت کچھ بتاتی تھیں۔

آج حالات کافی بدل چکے ہیں، لوگ بدل چکے ہیں، شاید وہ آسمان بھی بدل چکا ہے جس پر چھ اور سات مئی کو دہکتے شعلے برستے دیکھے گئے، فرانس اور چین کی ٹیکنالوجی کا بھرپور مظاہرہ دیکھا جو میڈیا پر براہ راست نشر ہو رہا تھا۔ جو نہیں دکھایا جا رہا تھا، وہ ان لوگوں کی دیرینہ آرزو تھی جو امن اور سکون کا ایک لمحہ چاہتے ہیں۔

اس رات کے اندھیرے میں برصغیر کے ان لاکھوں لوگوں کی آوازیں ملبے کے نیچے دبائی جا رہی تھیں جو دونوں ملکوں کے بیچ قیام امن کے متلاشی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر