ٹی ٹی پی کی پنجاب میں جڑیں پھیلانے کی کوششیں

کالعدم ٹی ٹی پی عسکری گروپوں کے ساتھ تعلقات اور سیاسی جماعتوں کے ناراض عناصر کو استعمال کر کے پنجاب میں اپنی جڑیں پھیلانے کی کوشش کرتی رہے گی۔

26 نومبر، 2008 کی اس تصویر میں پاکستان کے ضلع اورکزئی (سابق اورکزئی قبائلی ایجنسی) کے علاقے ماموزئی میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی اور پاکستانی طالبان کمانڈر لطیف محسود (درمیان) کو دیکھا جا سکتا ہے (اے مجید/ اے ایف پی)

گذشتہ چند ہفتوں سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔

اپنی جاری ’آپریشن الخندق‘ کے دوران ٹی ٹی پی نے حالیہ ہفتوں میں پنجاب میں کم از کم 14 حملے کرنے کی کوششیں کیں، جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ناکام بنایا۔

ساتھ ہی ٹی ٹی پی نے اپنے جنگجوؤں کی ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں انہیں ڈیرہ غازی خان اور میانوالی کے مختلف علاقوں میں موٹر سائیکلوں پر گشت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی نے اپنے دارالافتاء کے سربراہ مفتی ندیم درویش کا ایک آڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس میں پنجاب کے عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ پاکستان میں طالبان طرز کی امارت قائم کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کی حمایت کریں۔

صوبے میں قدم جمانے کے لیے ٹی ٹی پی کے پروپیگنڈا بازو ’العمـر میڈیا‘ نے ٹیلی گرام اور دیگر میسجنگ ایپس پر پنجابی زبان میں اپنا مواد شائع کرنا شروع کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ شدت پسند گروہ نے ڈیرہ غازی خان اور تونسہ کے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا کہ وہ حکومت کی سرپرستی میں بننے والی امن کمیٹیوں (طالبان مخالف ملیشیاؤں) کا حصہ نہ بنیں۔

ٹی ٹی پی نے ان امن کمیٹیوں کو حکومت کی طرف سے عام شہریوں کو اپنے خلاف اکسانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

اس سے قبل ٹی ٹی پی نے اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لیے کالعدم لشکر جھنگوی اور غازی فورس (لال مسجد کے سابق طلبہ پر مشتمل گروہ) کے کچھ سابقہ دھڑوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے لیے پنجاب میں اپنی موجودگی بڑھانا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے بیانیے کو تقویت دے سکے کہ وہ پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے اور یہ تاثر ختم کر سکے کہ وہ صرف پشتونوں، بالخصوص محسود قبیلے پر مشتمل ایک مقامی تحریک ہے۔

اگرچہ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مقابلے میں ٹی ٹی پی کی پنجاب میں سرگرمیاں کم ہیں لیکن یہ حملے اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی پنجاب میں اپنے نیٹ ورک کو بڑھانے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتی ہے۔

پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا اور زرعی اعتبار سے سب سے اہم صوبہ ہے۔

ٹی ٹی پی کی یہاں موجودگی نہ صرف اسے زیادہ شہرت دے سکتی ہے بلکہ یہ اسے ’اربن انسرجنسی‘ میں تبدیل ہونے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

ٹی ٹی پی کے قیام (دسمبر 2007) کے بعد ایک عسکری نیٹ ورک جسے ’پنجابی طالبان‘ کہا جاتا تھا، وجود میں آیا۔

اس میں پاکستان کی حمایت یافتہ کشمیری جہادی تنظیموں اور فرقہ ورانہ گروپوں کے باغی دھڑے شامل تھے۔ یہ پنجابی طالبان 2008 سے 2014 کے درمیان ٹی ٹی پی کے حملوں میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہے۔

تاہم 2015 میں آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کے بعد ٹی ٹی پی اندرونی خلفشار کا شکار ہوئی اور پنجابی طالبان کے کچھ دھڑے القاعدہ برصغیر (AQIS) میں شامل ہو گئے جبکہ باقی غیر فعال ہو گئے۔

اب ٹی ٹی پی نے اپنے نئے تنظیمی ڈھانچے کے تحت پنجاب میں دو ’شیڈو صوبے‘ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پہلا، شمالی پنجاب، جس کے سربراہ سید ہلال غازی ہیں جبکہ دوسرا، جنوبی پنجاب، جس کی قیادت عمر معاویہ کر رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق پنجاب میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد 250 سے 300 کے درمیان ہے۔

جولائی 2020 سے اب تک 54 عسکری گروہ ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں، جن میں سے صرف دو گروہ پنجاب سے ہیں، جن کی قیادت ارشد بھٹی اور خالد بن ولید کر رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں دیوبندی نظریے کا اثر شمالی پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

ٹی ٹی پی کا جنوبی پنجاب ونگ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے تحت 10 ذیلی گروہ کام کر رہے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ جنوبی پنجاب ماضی میں کشمیری جہادی گروپوں جیسے ’جیش محمد‘ (JeM) اور ’لشکر جھنگوی‘ (LeJ) کے لیے ایک بڑی بھرتی گاہ رہا ہے۔

جیش محمد کے باغی کمانڈر اسمٰعیل معاویہ پنجابی طالبان کے سربراہ تھے۔ اس پس منظر میں یہ حیران کن نہیں کہ ٹی ٹی پی کی نظریاتی اور جسمانی موجودگی جنوبی پنجاب میں زیادہ مضبوط ہے۔

شمالی اور جنوبی پنجاب کے لیے ٹی ٹی پی کے مقرر کردہ رہنماؤں کا پس منظر بھی گروپ کے منصوبے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

مثلاً، سید ہلال غازی لال مسجد کے فارغ التحصیل ہیں اور 2007 کے فوجی آپریشن کے بعد شدت پسندی کی راہ پر گامزن ہوئے۔

وہ ’جماعت الاحرار‘ (ٹی ٹی پی کا ایک اہم دھڑا) کے ساتھ بھی قریبی روابط رکھتے ہیں۔ غازی کا ’لشکر جھنگوی‘ کے ایک اہم دھڑے ’اسلم فاروقی گروپ‘ کے ساتھ بھی تعلق رہا ہے۔

2009 سے 2012 کے درمیان غازی فورس نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی دہشت گرد حملے کیے تھے۔

2015 میں پاکستان کی کامیاب انسداد دہشت گردی مہم کے بعد غازی فورس افغانستان منتقل ہو گئی تھی اور طالبان کی افغانستان میں واپسی (اگست 2021) کے بعد شمالی وزیرستان میں دوبارہ فعال ہو گئی۔

اسی طرح، عمر معاویہ بھی لشکر جھنگوی کے سابق رکن ہیں اور پنجاب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شیعہ برادری پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی پنجاب میں اپنے نیٹ ورک کو مستحکم کرنے میں ’جماعت الاحرار‘ کے ساتھ حالیہ مفاہمت بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

ماضی میں ’جماعت الاحرار‘ نے ٹی ٹی پی سے دو بار علیحدگی اختیار کی: 2015 میں قیادت کے تنازعے پر اور 2023 میں اپنے سربراہ عمر خالد خراسانی کے قتل کے بعد۔

’جماعت الاحرار‘ نے عمر خالد خراسانی کے قتل کا الزام ٹی ٹی پی پر لگایا اور خیبر پختونخوا میں پولیس پر حملے بھی کیے، جن کی ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

تاہم اب ’جماعت الاحرار‘ دوبارہ ٹی ٹی پی میں ضم ہو چکی ہے اور اسے قیادت میں زیادہ نمائندگی دی گئی ہے۔

ڈاکٹر حق یار کو رہبری شوریٰ کا رکن بنایا گیا ہے اور عمر مکرم خراسانی کو شمالی زون کا عسکری چیف مقرر کیا گیا ہے۔

اسی طرح مفتی سربکف مہمند کو ٹی ٹی پی کی سیاسی کمیٹی میں اہم عہدہ دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ’جماعت الاحرار‘ کے 20 ارکان کو ٹی ٹی پی میں اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔

ماضی میں ’جماعت الاحرار‘ نے پنجاب میں کئی بڑے حملے کیے تھے اور اس کا پنجاب میں ایک متحرک نیٹ ورک موجود ہے۔

ٹی ٹی پی اسی نیٹ ورک اور پنجاب کے دیگر غیر فعال شدت پسند گروپوں جیسے ’غازی فورس‘ اور ’لشکر جھنگوی‘ کے ساتھ تعلقات کو استعمال کر کے اپنا اثر بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ٹی ٹی پی پنجاب میں دو رخی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف وہ ’جماعت الاحرار‘ اور دیگر عسکری گروپوں کے نیٹ ورکس کے ذریعے اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔

دوسری طرف وہ ’تحریک لبیک پاکستان‘ کے پرتشدد عناصر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ انہیں شریعت کے نفاذ کے اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکے۔

ٹی ٹی پی کی سیاسی کمیٹی ’جماعت اسلامی‘ اور ’جمعیت علمائے اسلام ‘ کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ملک میں شریعت نافذ کرنے کے اپنے منصوبے کو تقویت دی جا سکے۔

گذشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ان جماعتوں کی ناقص کارکردگی اور جے یو آئی کی جانب سے پارلیمانی سیاست چھوڑنے کے اشاروں نے ٹی ٹی پی کے لیے سیاسی مایوسی کا فائدہ اٹھانے کا ایک موقع فراہم کیا۔

مجموعی طور پر ٹی ٹی پی کی موجودگی جنوبی پنجاب میں زیادہ مضبوط ہے جبکہ شمالی پنجاب میں اس کا اثر کم ہے۔

بہرحال، ٹی ٹی پی اپنی حکمت عملی جاری رکھے گی اور عسکری گروپوں کے ساتھ تعلقات اور سیاسی جماعتوں کے ناراض عناصر کو استعمال کر کے پنجاب میں اپنی جڑیں پھیلانے کی کوشش کرتی رہے گی۔

مصنف ایس راجاراتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور کے سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ