17 سالہ ثنا یوسف کے قتل پر ردعمل دیتے ہوئے ایک سینیئر صحافی نے لکھا کہ ’سوشل میڈیا پر ملنے والی شہرت نے ایک اور زندگی نگل لی۔‘
گویا اصل جرم قتل نہیں بلکہ ثنا کی شہرت ہے۔ گویا مشہور ہونے کی پاداش میں، اس سوشل میڈیا نے ہی 17 سال کی بچی پر گولی چلا دی ہو۔ صنفی تشدد کے ایسے واقعات پر ہونے والی اس طرز کی کمنٹری صرف کمنٹری نہیں، بلکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی ہے جو قتل ہونے پر بھی خواتین کو ہی قصور وار مانتا ہے اور ان ہولناک جرائم کے جواز ڈھونڈتا ہے۔
اس قسم کے جواز ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں۔
کہا گیا کہ قندیل بلوچ کچھ زیادہ ہی بے باک تھی، اس کے ساتھ تو ایسا ہونا ہی تھا۔ نور مقدم وہاں گئی ہی کیوں؟ اپنے گھر رہتی، تو ایسا نہ ہوتا۔ ہر بار، بس یہی تکرار کہ جو بھی ہو، مسئلے کی اصل جڑ عورت ہی ہے۔ اور مرد؟ وہ تو بیچارہ صرف ردعمل دیتا ہے۔ یہ سوچ اور یہ بیانیہ صرف غلط ہی نہیں بلکہ خطرناک ہے۔
اس بیانیے کی بنیاد پر ہی قاتلوں کو تحفظ ملتا ہے اور مقتول گناہ گار قرار دے دیے جاتے ہیں۔ ثنا یوسف کے قتل اور اس کے بعد، سوشل میڈیا پر بننے والے اس بیانیے پر ہر ذی شعور پاکستانی کو سوچنا چاہیے۔ کیا ہمارا معاشرہ یونہی ظلم و تشدد کا شکار عورتوں کو قصور وار مانتا رہے گا؟ کیونکہ اگر سوچ نہ بدلی اور یہ گھناونا بیانیہ یوں ہی مانا جاتا رہا، تو ہمارے معاشرے میں لڑکیاں یوں ہی قتل ہوتی رہیں گی۔ اور ہم ان کے قتل کو، انہی کے اعمال کا نتیجہ قرار دیتے رہیں گے۔ اور یوں ان لڑکیوں کے سفاک قاتل، ایک ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہونے کے بعد بھی، ہمارے معاشرے کا ایک قابل قبول حصہ بنے رہیں گے۔
ثنا یوسف اس لیے نہیں قتل ہوئی کیونکہ وہ مشہور تھی۔ وہ اس لیے نہیں ماری گئی کیونکہ اس کے ہزاروں فالوورز تھے یا وہ آن لائن ویڈیوز پوسٹ کرتی تھی۔ اس کی بے باکی، اس کی شہرت، اس کا لائف سٹائل، اس کے قتل کی وجہ نہیں۔ وہ صرف اس لیے قتل کی گئی کیونکہ ایک مرد سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ ایک لڑکی نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا۔
ایک لڑکی نے اسے ’نہ‘ کہا۔ اور وہ اس لیے قتل ہوئی کہ اس پدر شاہی معاشرے نے ہمیشہ اس مرد کو یہی سکھایا کہ اگر عورت نہ کہے، تو اس پر تشدد ایک مرد کا حق ہے۔ وہ اپنے ہی گھر میں، ایک ایسے مرد کے ہاتھوں ماری گئی، جسے لگتا تھا کہ وہ ثنا کی توجہ، اس کی چاہت اور شاید اس کی تابعداری کا حقدار ہے۔ اور جب اسے یہ سب نہیں ملا، تو اس نے ’نہ‘ کہنے والی لڑکی کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اور قتل کے بعد، ثنا کے خلاف ایک اور قسم کے تشدد کا آغاز ہوا۔ یہ لڑکی اسلام آباد آئی ہی کیوں؟ ٹک ٹاک پر ان کپڑوں میں وہ ویڈیوز کیوں لگاتی تھی؟ اس کا قاتل سے کیا تعلق تھا؟ یہ کس قسم کی ویڈیوز بناتی تھی؟ فحش تھی، اچھا ہی ہوا۔ ظاہر ہے، اس نے کچھ نہ کچھ کیا ہی ہوگا۔ بلا سبب بھی کوئی کسی کو قتل کرتا ہے؟ ثنا کے قتل کی خبریں سوشل میڈیا پر لگیں، تو کمنٹ سیکشنز میں پدر شاہی کو اپنا جلوہ تو دکھانا تھا ہی۔ درجنوں مرد، بلا جھجک مقتول کی کردار کشی کرنے اور قاتل کو بے قصور ٹھہرانے میں جتے ہیں۔ یہی تو پدر شاہی کا شیوہ ہے۔ مجرم مرد ہو، تو بھی درست، اور جس کے خلاف جرم کیا گیا، وہ قصور وار۔
ہمارا میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہزاروں صارفین، بھلے ہی ثنا یوسف کے قتل کو محض ایک ٹک ٹاکر کا قتل قرار دیں، مگر سچ یہ ہے کہ سوشل میڈیا ثنا کا قاتل نہیں۔ انٹرنیٹ یا ٹیکنالوجی نے ثنا کو نہیں مارا۔ ہماری رگوں میں دوڑتی پدر شاہی اور اس سے جڑے ہولناک عقائد اور رویے ثنا کے قتل کا سبب بنے۔ صنفی بنیادوں پر کیا جانے والا تشدد، یہ ظلم و جبر، ہماری تاریخ اور ہماری روایتوں کا حصہ ہے۔ اور اب یہی روایتیں ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکی ہیں اور وہ صدیوں پرانی نفرت اور غصہ اب ہم ان بچیوں پر نکال رہے ہیں جو انٹرنیٹ پر کچھ کہنے کی جسارت کرتی ہیں۔
دور ضرور بدل گیا ہے، مگر پدر شاہی نظام میں کچھ نہیں بدلا۔ بیک ڈراپ نیا ضرور ہے، مگر عورتوں کو کنٹرول کرنے کی چاہ وہی پرانی۔ وہی غصہ۔ وہی بربریت۔ وہی مرد، جو بدلتے ادوار سے بلا واسطہ، اب بھی عورت پر اپنی اجارہ داری ثابت کرنے کی کوششوں میں جڑے ہیں۔
ہم نے اپنے لڑکوں کو یہ سکھایا ہے کہ وہ جو چاہیں، وہ ان کی ملکیت ہے۔ انہیں یہ بتایا ہے کہ کوئی عورت ’نہ‘ کرے، تو یہ تمہاری بے عزتی، تمہاری ذلت ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی محبت کے جواب میں صرف محبت ہی قابلِ قبول ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو؟ تو پرتشدد ردعمل نہ صرف ان کا حق ہے، بلکہ ان کی غیرت کو بچانے کے لیے ضروری بھی ہے۔ آپ نے بھی کئی بار یہ کہانی دہراتی دیکھی ہوگی۔ ایک عورت کی ’نہ‘، مرد کی برداشت سے باہر ہے۔ اور ’نہ‘ ہو جائے، تو یہ معاشرہ بھی سفاکی کی اجازت دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں پھیلا صنفی تشدد صرف عورتوں کے خلاف ہونے والے ان سنگین جرائم تک محدود نہیں، بلکہ ان جرائم کے لیے عورتوں کو خود ہی قصور وار ٹھہرانا بھی اس تشدد کا حصہ ہے۔ ہم عورت کے لباس، اندازِ گفتگو، طرزِ زندگی، اور حتیٰ کہ اس کی ذات تک کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اگر وہ خاموش رہے تو کمزور ہے، آواز اٹھائے تو گستاخ۔ اگر اپنے لیے جگہ بنانا چاہے تو فحش کہلاتی ہے، اور اگر گھر سے باہر نکلے تو الزام یہ کہ وہ خود خطرے کو دعوت دے رہی ہے۔ عورت کچھ بھی کرے، وہ غلط ہی ہے۔ اور صحیح ہونا اس کے لیے ممکن ہی نہیں۔
پدر شاہی کی اس شطرنج میں، عورت کبھی درست چال نہیں چل سکتی، کیونکہ یہ کھیل ہی ایسے اصولوں پر قائم ہے جہاں عورت کا ہر فیصلہ پہلے سے ہی غلط مانا جا چکا ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں نوجوانوں کا سوشل میڈیا پر نمایاں ہونا اکثر ان کی تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مگر نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے لیے یہی نمائش، اکثر ان کے خلاف تشدد، ہراسانی اور تضحیک کا سبب بن جاتی ہے۔
خواتین صحافی ہوں، ایکٹرز ہوں، سیاست دان ہوں، یا سوشل میڈیا انفلوئنسر، اگر ایک مشہور، پبلک پروفائل رکھتی ہیں، تو اس کی قیمت بھی چکاتی ہیں۔ اور اگر کچھ ہو جائے، تو ان کا یہی پروفائل ان کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے۔ ہر عورت جو ’نہ‘ کہے، خطرے میں ہے، صرف ہراسانی کے نہیں، بلکہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیے جانے کے۔ پھر غیرت کے نام پر قتل ہو، گھریلو تشدد ہو، اس پر تیزاب پھینکا جائے یا اس کے گھر میں گھس کر اسے گولیوں کا نشانہ بنایا جائے، ان تمام جرائم میں جڑ ایک ہی ہے۔ وہ مرد جنہیں یقین ہے کہ عورتیں ان کی جاگیر ہیں، اور وہ معاشرہ جو اس سوچ کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ اسے تقویت دیتا ہے۔
ثنا کے قتل کو اب ٹیکنالوجی کے خلاف ایک تنبیہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹک ٹاکر کا قتل ہو جانا، شہرت کی سزا پانا، اور اس قسم کی کئی باتیں صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ثنا کا قتل، ٹک ٹاک، سوشل میڈیا پر اپنا نام اور ایک مقام بنانے کا نتیجہ تھا۔ یہ بیانیہ بالکل درست نہیں اور یہ کہانی جھوٹ پر مبنی ہے۔
اصل کہانی یہ ہے؛ یہ ہم سب ہی ہیں جو لڑکوں کی صورت میں قاتلوں کو پال رہے ہیں۔ ہم ہی انہیں قتل کرنے کی ہمت دیتے ہیں اور پھر اپنی بچیوں کا سوگ مناتے ہیں۔ ہم ان لڑکوں کو ان کی حدود نہیں بتاتے۔ انہیں یہ نہیں سکھاتے کہ ’نہیں‘ کا مطلب ’نہیں‘ ہے، اور اس ’نہیں‘ کا ان کی غیرت، عزت سے کوئی تعلق، واسطہ نہیں۔ ہم انہیں یہ نہیں بتاتے کہ وہ کسی پر ملکیت کا حق نہیں رکھتے، نہ ہی وہ محبت کے بدلے محبت کا حق رکھتے ہیں۔ ہم انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ ان کی مردانگی، عورتوں کو قابو میں رکھنے سے جڑی ہے۔ اور یہ سب سکھا کر ہم حیران ہیں کہ پاکستان میں اتنے مرد اپنی انا اور غیرت کو بچانے کے لیے قتل کرنے کو تیار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انگریزی کا ایک لفظ ہے Femicide، یعنی عورت کشی۔ خواتین کا قتل کر دینا، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہیں۔ اور ہمارے معاشرے کا اصل مسئلہ یہی ہے۔
ہم عورت کشی کو کبھی غیرت کا نام دیتے ہیں، کبھی خاندانی مسئلہ گردانتے ہیں۔ عشق میں ناکامی کہیں، عارضی جنون یا دیوانگی کہیں، جو بھی کہیں، سچ یہی ہے، کہ یہ عورتیں اس لیے ماری جا رہی ہیں کیونکہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح خودمختاری دکھائی، جو مردوں سے برداشت نہ ہو پائی۔ ثنا اس گھناؤنے سچ کا پہلا نشانہ ہے نہ آخری۔ مگر ثنا کے قتل پر، ہم سب کو ایک بار ٹھہر کر یہ ضرور کہنا چاہیے کہ یہ مرد، عورتوں کو اس لیے مار رہے ہیں، کیونکہ وہ انہیں مار سکتے ہیں۔ اور ہمارا معاشرہ اور قانونی نظام انہیں روکنے کی سعی نہیں کر رہے۔
یہاں میڈیا کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے۔ جب خبروں کی شہ سرخیاں ثنا کو ٹک ٹاکر کہہ کر متعارف کرواتی ہیں، تو وہ اس صنفی جرم کو ایک تماشے میں بدل دیتی ہیں۔ سیاق و سباق کے بغیر اس پر ’ٹک ٹاکر‘ کا لیبل لگا دینا اس گھناؤنے قتل سے توجہ ہٹا کر ثنا کے سوشل میڈیا، اس کی ویڈیوز، اس کے طرز زندگی کو توجہ کا مرکز بنا دیتا ہے۔ اور اس پدر شاہی معاشرے میں یہ سب اس بات کا ثبوت ہے، کہ جو ہوا، وہ اس کی اپنی حرکتوں کا نتیجہ تھا۔
تو آئیں اس ڈرامے کو ختم کریں۔ اس قتل کا ٹک ٹاک سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قتل ایک عورت کو قابو میں کرنے، اس کو اپنی ملکیت ثابت کرنے کی خواہش کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک پرتشدد، پدر شاہی معاشرے کا نتیجہ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ، جسے ایک 17 سالہ بچی کا خوشی سے، اپنی مرضی سے رہنا، بھرپور طریقے سے آزادانہ زندگی گزارنا کسی سے برداشت نہ ہوا اور اسے موت کی صورت میں اپنی ہی زندگی جینے کی سزا دے دی گئی۔
ثنا کی موت کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم مردوں کو آج بھی یہی سکھاتے ہیں کہ وہ عورتوں کی تابعداری اور ان کی زندگی پر پورا حق رکھتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔