ثنا یوسف قتل کیس میں گرفتار ملزم کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ

ملزم عمر حیات کو ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ احمد شہزاد گوندل کی عدالت میں چہرے پر کپڑا ڈال کر پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے ملزم کی شناخت پریڈ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کیس میں گرفتار ملزم عمر حیات کو بدھ کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے ملزم کی شناخت پریڈ کی درخواست منظور کرتے ہوئے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

چترال سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ ثنا یوسف کو دو جون کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں ان کے گھر میں داخل ہو کر گولیاں مار دی گئی تھیں، جہاں وہ اپنی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ رہائش پذیر تھیں۔ 

ملزم اس کارروائی کے بعد فرار ہو گیا تھا، جسے اگلے روز گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ سنبل میں قتل کی دفعہ کے تحت درج کیا گیا۔

ثنا یوسف کے قتل میں گرفتار 22 سالہ ملزم عمر حیات کو آج ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ احمد شہزاد گوندل کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

ملزم کو جب کمرہ عدالت کے باہر لایا گیا تو چند ہی سیکنڈز میں موبائل فون پکڑے میڈیا نمائندگان نے انہیں لانے والی گاڑی کا گھیراؤ کر لیا۔ ملزم کے چہرے پر کالا کپڑا ڈالا گیا تھا، جسے اتارے بغیر ہی اسے گاڑی سے اتار کر کمرہ عدالت میں پیش کر دیا۔ 

جس دوران ملزم کو کمرہ عدالت میں پیش کیا جا رہا تھا، اس وقت متعدد افراد نے اندر جانے کی کوشش کی، تاہم چند افراد ہی اندر داخل ہو سکے، جس کے بعد پولیس اہلکار نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ 

سماعت کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ دروازے کے پاس کمرہ عدالت میں موجود ایک پولیس اہلکار نے کہنا شروع کر دیا: ’میڈیا نہیں، میڈیا نہیں۔‘ اس طرح کچھ میڈیا نمائندگان جن میں بیشتر یوٹیوبرز شامل تھے، کمرہ عدالت میں داخل نہیں ہو سکے۔ 

چونکہ کمرہ عدالت میں موبائل فون کا کھلے عام استمعال ناپسند کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس اہلکار نے عدالت میں موجود لوگوں سے کہا کہ ’موبائل فون مزید نیچے کر لیں، ایسے استعمال نہ کریں۔‘

سماعت کا آغاز ہوا تو پراسیکیوٹر کی جانب سے ثنا یوسف قتل کیس کے مقدمے کا متن پڑھا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے دوران متعلقہ عدالت کے پراسیکیوٹر اور ڈسٹرکٹ پرایسکیٹر کے غیرحاضر ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ احمد شہزاد نے استفسار کیا: ’میری عدالت کے پراسیکیوٹر کہاں ہیں؟ ویسے تو پراسیکیوٹرز عدالت آتے نہیں، آج سب آ گئے ہیں۔‘

جوڈیشل مجسٹریٹ نے مزید کہا: ’ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کو کمرہ عدالت میں بلائیں‘ جس پر ڈیوٹی پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’پراسیکیوٹر چھٹیوں پر ہیں۔‘

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ ’ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر آئے گا تو کیس آگے چلے گا۔‘ انہوں نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’آج ہائی پروفائل کیس ہے تو سب پراسیکیوٹرز پہنچے ہوئے ہیں۔‘

بعد ازاں عدالت نے ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کے آنے تک سماعت میں وقفہ کر دیا اور ملزم عمر حیات کو واپس بھیج دیا گیا، تاہم 15 منٹ گزرنے کے بعد بھی وہ عدالت میں پیش نہ ہوئیں، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم عمر حیات کو شناخت پریڈ کے لیے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

ثنا یوسف کے قتل کے اگلے روز انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد علی ناصر نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’یہ متعدد بار ریجیکشن کا کیس تھا۔ 22 سالہ ملزم عمر ثنا یوسف سے رابطے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ اسے بار بار مسترد کر رہی تھیں۔‘

 

انہوں نے بتایا کہ ’29 مئی کو ملزم نے ثنا سے رابطے کی کوشش کی، وہ ثنا یوسف کے گھر تک بھی پہنچا اور ملاقات کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔

’دو جون کو ملزم نے دوبارہ ملنے کی کوشش کی۔ پھر ناکامی ہوئی، جس کے بعد اس نے گھر میں گھس کر ثنا یوسف کو قتل کر دیا۔‘

آئی جی نے بتایا تھا کہ ملزم کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور 300 سے زائد کال ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا جبکہ سیف سٹی اسلام آباد اور نجی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کی گئیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان