آئی جی اسلام آباد علی ناصر نے نیوز کانفرنس میں بتایا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ متعدد بار ریجیکشن کا کیس تھا۔ 22 سالہ ملزم عمر ثنا یوسف سے رابطے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ اسے بار بار مسترد کر رہی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’29 مئی کو ملزم نے ثنا سے رابطے کی کوشش کی، وہ ثنا یوسف کے گھر تک بھی پہنچا اور ملاقات کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔‘
’دو جون کو ملزم نے دوبارہ ملنے کی کوشش کی۔ پھر ناکامی ہوئی جس کے بعد اس نے گھر میں گھس کر ثنا یوسف کو قتل کر دیا۔‘
مزید تفصیلات کے مطابق ’ملزم کی گرفتاری کے لیے سات ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور اس کی شناخت کے لیے 113 سی سی ٹی وی کیمرے چیک کیے گئے۔ اس کی گرفتاری کے لیے 11 چھاپے مارے گئے۔‘
آئی جی نے بتایا کہ ملزم کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا ہے، ’ملزم کی شناخت عمر کے نام سے ہوئی ہے اور اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے اور اس کے والد ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔‘
چترال سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ ثنا یوسف کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں ان کے گھر میں داخل ہو کر گولیاں ماری گئیں، جہاں وہ اپنی والدہ اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ رہائش پذیر تھیں۔ ملزم اس کارروائی کے بعد فرار ہو گیا تھا۔
آئی جی کے مطابق ’ثنا یوسف کا موبائل فون جو ملزم کے پاس تھا اسے بھی برآمد کر لیا گیا ہے، ملزم نے اسے بھی غائب کر دیا تھا کیونکہ اس میں متعدد ثبوت موجود تھے۔ اور اپنا فون بھی غائب کر دیا تھا۔‘
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ واقعے کے بعد ڈی آئی جی اسلام آباد کی نگرانی میں سات مختلف پولیس ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ ان ٹیموں نے ٹیکنیکل تحقیقات کرتے ہوئے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور 300 سے زائد کال ریکارڈز کا تجزیہ کیا۔ سیف سٹی اسلام آباد اور نجی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کی گئی۔
آئی جی اسلام آباد نے مزید کہا کہ ’ثنا یوسف کے قتل نے نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ ایک نوجوان لڑکی کا بے رحمانہ قتل پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ ملزم کی شناخت اور گرفتاری کا عمل انتہائی پیچیدہ تھا اور اس پر بے حد دباؤ تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ملزم کے خلاف مضبوط کیس بنایا جائے گا، شفاف تحقیقات کی جائیں گی اور ٹھوس شواہد اکٹھے کیے جائیں گے تاکہ معزز عدالت اسے قانون کے مطابق سخت سزا دے سکے۔‘
اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ اسلام آباد میں پیر کی شام قتل کی گئی سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کے قتل کے ملزم کو 20 گھنٹوں ہی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے منگل کی دوپہر ’ایکس‘ پر ایک بیان میں ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ’شاباش اسلام آباد پولیس، ثنا یوسف قتل کیس کا سراغ لگا لیا گیا۔‘
انہوں نے لکھا کہ نقاب پوش ملزم نے کمسن لڑکی کو قتل کر دیا۔ ’پولیس نے مقتول سے پستول اور مقتول لڑکی (ثنا یوسف) کا فون برآمد کر لیا اور ملزم نے قتل کا اعتراف بھی کر لیا۔‘
Well Done Islamabad Police. Sana Yousaf murder case traced, accused arrested and weapon recovered within 20 hours
The incident occurred yesterday in Islamabad when a young girl was murdered by a masked accused. The accused has been arrested just an hour back. Police has… pic.twitter.com/jmQx9xAlhm
— Mohsin Naqvi (@MohsinnaqviC42) June 3, 2025
اسلام آباد کے تھانہ سنبل پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملزم ٹک ٹاکر تھا یا نہیں، یہ معلوم نہیں ہے تفتیش میں سامنے آئے گا البتہ گرفتار ملزم اپنے آپ کو ثنا یوسف کو دوست بتا رہا ہے۔‘
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے بتایا تھا کہ ثنا یوسف کا قتل غیرت کے نام پر نہیں کیا گیا، تاہم ان سے ’جان پہچان رکھنے والے کسی فرد نے ان کے گھر سے نکلتے ہوئے ان پر فائر کیے۔‘
اس سوال پر کہ ’کہا جا رہا ہے کہ یہ غیرت کے نام پر قتل ہے، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟‘ ایس ایچ او نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہے، لوگ جو مرضی کہتے رہیں، فی الحال ہمارے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ماسک پہنے لڑکے نے یہ کیا، جس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں۔‘
ثنا یوسف ایک کانٹنٹ کری ایٹر/میڈیا انفلواینسر بھی تھیں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ بھی چلا رہی تھیں۔
ان کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ، انسٹاگرام پر پانچ لاکھ اور فیس بک پر تقریبا ڈیڑھ لاکھ فالوورز ہیں۔
ان کے قتل کی ایف آئی آر ان کی والدہ فرزانہ یوسف کی مدعیت میں درج کر لی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف آئی آر، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، کے مطابق گذشتہ روز شام پانچ بجے اچانک ایک درمیانے قد کا سمارٹ جسامت کا شخص ثنا یوسف کے گھر داخل ہوا۔ ایف آئی آر میں ثنا کی والدہ کے بیان کے مطابق ’اس وقت میں، میری نند اور ثنا گھر پر موجود تھے۔ جبکہ میرے شوہر اس وقت گھر سے باہر کسی کام سے گئے ہوئے تھے جبکہ میرا 15 سالہ بیٹا بھی اپر چترال میں تھا۔‘
’یہ واقعہ میں نے اور میری نند نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور وہ سامنے آنے پر نامعلوم ملزم کی شناخت کر سکتے ہیں۔‘
’کمرے میں موجود ثنا کو قتل کرنے کے ارادے سے سیدھے فائر کیے، دو فائر میری بیٹی کو سینے پر لگے جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر گئی۔ یہ نامعلوم شخص سیڑھیاں اتر کر بھاگ گیا۔‘
شور کرنے پر ’اہل محلہ جمع ہو گئے اور میں اپنی بیٹی کو ہمسایوں کی گاڑی میں ہسپتال لے آئی جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو چکی تھی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے ثنا یوسف کے والد سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ’وہ کافی پریشان ہیں، اور بات نہیں کر سکتے۔‘