پنجاب پولیس کے مطابق لاہور کے علاقے کاہنہ میں دو بیٹوں کے ساتھ مل کر اپنی بیوی اور نابالغ بیٹی کو قتل کرنے والے شخص کو بیٹوں سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔
تھانہ کاہنہ کے پولیس افسر حاجی محمد ممتاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے آج ہفتے کو گفتگو میں بتایا کہ ’ملزم یوسف نے دو ماہ پہلے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ اس کی بیوی اور بیٹی کو کسی نامعلوم شخص نے زنا کاری کے لیے اغوا کر لیا ہے۔ چند دن پہلے جب وہ واپس آئیں تو گھر میں لڑائی جھگڑا ہوا، اس دوران گذشتہ روز جمعے کو یوسف نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ مل کر چھری سے دونوں ماں بیٹی کو قتل کر دیا۔ انہیں گرفتار کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔‘
رخسانہ بی بی اور ان کی بیٹی رمشا دو ماہ لاپتہ ہونے کے بعد گھر واپس آئیں تو محمد یوسف نے ناجائز تعلقات کے شبہے میں اپنے دو بیٹوں، علی حسن اور زین حسن، کے ساتھ مل کر ماں بیٹی کو تیز دھار آلے سے قتل کر دیا۔ پولیس نے مقتولہ رخسانہ کے والد، کوٹ ادو کے رہائشی، اکبر علی کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کر کے تینوں باپ بیٹوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کے حکم پر درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق مدعی نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ ’ہمیں چند روز پہلے پتہ چلا کہ میری بیٹی رخسانہ کا اپنے خاوند کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے۔ اس نے ہمیں گھر بلایا کہ میرے خاوند سے بات کر کے صلح کرا دیں۔ میں اپنے دو بیٹوں، الیاس اور مظفر، کے ساتھ ان کے گھر گلوویڑہ گاؤں، کاہنہ پہنچا۔ ہم نے بات چیت کی لیکن ابھی معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ ہم تینوں باپ بیٹا جمعے کی صبح نمازِ فجر مسجد میں ادا کرنے چلے گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب نماز ادا کر کے واپس پہنچے تو دیکھا کہ یوسف نے تیز دھار چھری پکڑی ہوئی تھی، جس پر خون لگا تھا۔ ساتھ ہی میری بیٹی رخسانہ اور 13–14 سالہ نواسی رمشا خون میں لت پت پڑی ہوئی تھیں۔ میرے دونوں نواسے، علی حسن اور زین حسن، اپنی ماں کی ٹانگیں پکڑے ہوئے تھے۔ میرے دونوں نواسوں کی عمریں 10 سے 12 سال ہیں۔‘
اکبر علی کے بقول، ’میری بیٹی اور نواسی وہیں دم توڑ چکی تھیں، اس لیے ہم نے ایمبولینس کی بجائے میرے بیٹوں کو بھاگ کر مسجد میں اطلاع دینے کو کہا اور پولیس کو کال کی۔ میری بیٹی اور نواسی کو ناحق قتل کیا گیا ہے، لہٰذا تینوں ملزموں کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔‘
ملزم یوسف کی جانب سے رواں سال 27 جنوری کو تھانہ کاہنہ میں ہی ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی کہ ’میری بیوی رخسانہ اور بیٹی رمشا گھر سے غائب ہو گئی ہیں۔ جاتے ہوئے گھر سے دو لاکھ روپے نقدی اور آدھا تولہ زیور بھی ساتھ لے گئی ہیں۔ میں نے اپنے طور پر تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملیں۔ مجھے قوی شبہ ہے کہ کسی نامعلوم شخص نے میری بیوی اور بیٹی کو زنا کاری کے لیے اغوا کیا ہے۔ بازیاب کرایا جائے۔‘
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران کی جانب سے میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پولیس خود اس مقدمے میں مدعی بن سکتی ہے، قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ملزم نے پہلے اغوا کا مقدمہ درج کرایا، جب وہ واپس آئیں تو انہیں قتل کر دیا۔ ملزم واردات کے بعد موقع سے فرار ہو گئے تھے، جس کے بعد پولیس نے انہیں ایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا ہے۔ اب ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی جاری ہے۔‘