نور مقدم قتل کیس: مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار

منگل کے روز جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس باقر نجفی شامل تھے۔

نور مقدم قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو 20 اکتوبر، 2021 کو عدالت میں پیشی کے بعد پولیس اہلکار واپس لے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس میں مجرمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت میں فیصلہ سنا دیا گیا۔ عدالت نے قتل مقدمے میں مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے ریپ کے تحت سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔

سپریم کورٹ نے مالی اور چوکیدار کی سزاؤں میں تخفیف کرتے ہوئے کہا کہ جتنی سزا وہ گزار چکے ہیں، ان کی وہی سزا تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریپ کے مقدمے میں سیشن کورٹ کی جانب سے 25 سال سزا کو سزائے موت میں تبدیل کیا تھا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے مجرم کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’نور مقدم خود اُس گھر میں آئی تھی، کیا اس سے اغوا کی سزا کم نہیں ہوتی؟ سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور کی لاش مجرم کے گھر سے ملنا کافی ہے۔‘

جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، تسلیم شدہ حقائق پر دلائل دینے کی ضرورت نہیں، مجرم اور مقتولہ ایک ساتھ رہتے تھے، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ دونوں کے درمیان ایک ساتھ رہنے کا رشتہ تھا، جو یورپ میں ہوتا ہے، یہاں نہیں۔ لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنے کا رشتہ ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے۔ اس قسم کا رشتہ مذہب اور اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔‘

منگل کے روز جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس باقر نجفی شامل تھے۔ مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے سزائیں بڑھانے اور جو بری ہوئے، ان کو بھی سزا دلوانے کی درخواست دائر کی تھی۔

گذشتہ سماعت میں مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں ملزم کی 2013 سے آج تک کی میڈیکل ہسٹری بھی پیش کی۔ وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’پراسیکیوشن کا سارا کیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے۔ مجرم کے خلاف کیس شواہد کا شک و شبہ سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔ عدالت بطور شواہد پیش فوٹیجز سے باہر نہیں جا سکتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پراسیکیوشن کی فوٹیج چلائی گئی لیکن وہ چل نہ سکی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل کی فراہم کردہ یو ایس بی سے ویڈیو چلائی گئی۔‘

جسٹس ہاشم کاکڑ نے مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر سے کہا کہ ’جس سی سی ٹی وی فوٹیج پر آپ اعتراض اٹھا رہے ہیں، اس کو آپ تسلیم کر چکے ہیں۔ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج نہ ٹیمپرڈ ہے، نہ ہی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ اگر کوئی انسان ویڈیو بناتا تو اعتراض ہو سکتا تھا کہ ویڈیو کا مخصوص حصہ ظاہر کیا گیا۔ اس ویڈیو کے معاملے پر تو انسانی مداخلت ہے ہی نہیں۔ یہ ویڈیو سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے ریکارڈ ہوئی ہے۔‘

مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چوکیدار اور مالی کے وکیل نے دلائل دیے۔ وکیل نے کہا کہ ’چوکیدار اور مالی کو دس، دس سال سزا سنائی گئی۔ مجرمان پر الزام ہے کہ انہوں نے مقتولہ کو جانے سے روکا۔ مالی اور چوکیدار کی گھر میں موجودگی کے علاوہ اور کوئی جرم نہیں۔‘ جسٹس علی باقر نجفی نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ’اگر مجرمان مقتولہ کو نہ روکتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔‘ جسٹس ہاشم کاکڑ نے بھی کہا کہ ’تنخواہ سے زیادہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘

نور مقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’تھراپی کلینک کے مالک اور ملازمین کو حقائق چھپانے پر ملزم بنایا گیا تھا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ بارِ ثبوت مدعی پر تھا۔ چوکیدار اگر دروازہ بند نہ کرتا تو نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی۔ کئی دنوں پر مشتمل سی سی ٹی وی فوٹیج عدالت میں پیش کی گئی تھی۔ فرانزک رپورٹ میں فوٹیج میں کسی قسم کی ٹیمپرنگ نہیں پائی گئی۔‘

واقعے کا پس منظر:

20 جولائی 2021 کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا، جبکہ ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔ پولیس نے چوبیس جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرائل کورٹ نے کیا فیصلہ دیا تھا؟

چوبیس فروری 2022 کو سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے مجرم ظاہر جعفر کو جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے قتل کے جرم میں تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت، جبکہ ریپ کے جرم میں ظاہر جعفر کو 25 سال قید بامشقت کی سزا اور دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ اغوا کے جرم میں ظاہر جعفر کو دس سال قید بامشقت کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔

ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کر دیا گیا۔ مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو دس، دس سال کی قید سنائی گئی۔ ظاہر جعفر کے والد سمیت نو ملزمان کو عدالتی فیصلے کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

ہائی کورٹ کی اپیلوں میں کیا فیصلہ ہوا؟

ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے بعد مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے سزا کالعدم قرار دینے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جبکہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے بری ہونے والے ملزمان کو سزائیں دینے اور زیرِ حراست مجرمان کی سزاؤں کو بڑھانے کی اپیل کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 21 دسمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا، جو چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے سنایا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر دی تھیں، جنہیں ٹرائل کورٹ نے 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کو ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کو دو مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان