لائسنس فیس خاتمہ، پی ٹی وی کو عارضی حکومتی مدد درکار ہو گی: عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے مطابق پی ٹی وی کو حکومت سے وقتی طور پر سپورٹ درکار ہو گی، خاص طور پر اگلے ماہ اگست سے پہلے تاکہ ان اصلاحات کو مکمل کیا جا سکے۔

20 نومبر 2023 کو پاکستان ٹیلی ویژن ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی تصویر (سہیل اختر/ انڈپینڈنٹ اردو)

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کو خود کفیل ادارہ بننے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہوگا اور لائسنس فیس ختم کیے جانے کے بعد قومی ٹیلی ویژن کو حکومتی ’گرانٹ‘ درکار ہوگی۔

حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے بجلی کے بلوں میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے مختص کی گئی لایسنس فیس، مبلغ 35 روپے، کو ختم کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اندازاً ’ڈیڑھ سال کے اندر ہم ایک مستحکم اور خود کفیل ادارہ بن سکیں گے۔ اب تک پی ٹی وی کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوا، لیکن ہمیں حکومت سے وقتی طور پر سپورٹ درکار ہو گی، خاص طور پر اگلے ماہ اگست سے پہلے تاکہ ان اصلاحات کو مکمل کیا جا سکے۔‘

عطا تارڑ نے بتایا کہ پی ٹی وی اس وقت خسارے میں نہیں ہے، تاہم بجلی کے بلوں سے فیس ختم ہونے کے بعد اسے حکومت کی جانب سے گرانٹ درکار ہو گی۔

عطا تارڑ نے پی ٹی وی فیس ختم کرنے سے متعلق مزید بتایا کہ ’بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) یہ فیس ہمارے لیے اکٹھا کرتی تھیں، یعنی وہ صرف کلیکشن ایجنٹ تھیں۔‘

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ سسٹم ختم ہو رہا ہے اور کمپنیاں اپنے ریفارمز کے تحت یہ کام نہیں کرنا چاہتیں، لہٰذا یہ فیس اس لیے ختم کی گئی۔ اس کا تعلق براہِ راست پی ٹی وی کے ریفارمز سے نہیں ہے۔

عطا تارڑ نے کہا کہ اس اقدام کا اطلاق رواں ماہ جولائی سے ہو گا، یعنی صارفین کے بجلی بلوں میں پی ٹی وی فیس شامل نہیں ہوگی۔ ’اب ہم یہ فیس اکٹھی نہیں کریں گے بلکہ اصلاحات کے ذریعے اضافی آمدنی کے ذرائع پیدا کر کے اس نظام کو خودمختار بنانے کی کوشش کریں گے۔‘

فیس کی مد میں آنے والی رقم کیسے پوری کی جائے گی؟

وزیر اطلاعات نے فیس ختم کرنے کے خلا کو بھرنے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا: ’حکومت کی گرانٹ کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل ریویو سٹیمز یعنی اضافی آمدی کے ذرائع پیدا کرنے کے لیے پی ٹی وی سپورٹس کو ایک خود مختار ادارہ بنایا جائے گا تاکہ اس کی آمدن اور خرچ اپنا ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ سپورٹس ایک بڑا کمانے کا ذریعہ ہے، جسے خود مختار بنایا جا رہا ہے۔ ’سب سے تجربہ کار عالیہ رشید سپورٹس کی سربراہی کر رہی ہیں، جو کہ گذشتہ 30 سالوں سے کھیلوں کی صحافت سے وابستہ رہی ہیں۔ سپورٹس کے شعبے کو ہم ایک خودمختار یونٹ بنا رہے ہیں تاکہ اس کی آمدنی اور اخراجات دونوں اس کے اپنے ہوں۔ یعنی اگر کوئی بڑی سیریز آتی ہے تو وہ خود کمائیں گے اور خود خرچ کریں گے۔‘

عطا تارڑ نے کہا: ’جہاں تک کھیلوں کے نشریاتی حقوق کا تعلق ہے، جیسے کہ آئی سی سی کے حقوق، جو کافی مہنگے ہوتے ہیں، وہ پی ٹی وی کے بجٹ سے نہیں خریدے جائیں گے۔ بلکہ چونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری میں آتا ہے، اس لیے وزارت اطلاعات انہیں یہ حقوق حاصل کرنے میں معاونت فراہم کرے گی۔ باقی عام حالات میں وہ اپنی آمدنی خود پیدا کریں گے اور اپنے اخراجات خود اٹھائیں گے۔‘

وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا: ’دوسرا اقدام ری سٹرکچرنگ کا ہوگا جسے شروع کر دیا گیا ہے۔ ان میں 100 جعلی یا غیر حاضر ملازمین کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ پی ٹی وی میں کچھ صحافیوں کو شامل کیا گیا تھا جن کا پی ٹی وی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

عطا تارڑ کے مطابق تیسرا قدم ’ملازمین کی ڈگری کی تصدیق کا عمل ہے، جو اس وقت جاری ہے۔ اس ضمن میں 178 افراد کو شوکاز نوٹس جاری کیا جا چکا ہے۔ چوتھا قدم 1232 آسامیوں کو ختم کرنا ہے، جبکہ پی ٹی وی کا آخری آڈٹ، جو سال 2020 کے بعد سے نہیں ہوا تھا، اس کا بھی آرڈر دے دیا گیا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’پنشن کے نظام میں تبدیلی، یعنی اسے بائیومیٹرک تصدیق کے ذریعے الیکٹرانک کرنے سے 300 جعلی پنشنرز کا پتہ چلا۔ اس سے ماہانہ 40 لاکھ روپے کی بچت ہو گی۔ دوسری جانب میڈیکل بلز، جو پہلے نقد ادا ہوتے تھے، اب آن لائن ری ایمبرسمنٹ سسٹم کے ذریعے ہوں گے۔ اس سے ہمیں ابتدائی طور پر 90 لاکھ روپے کی ماہانہ بچت ہوگی۔‘‘

عطا تارڑ کے مطابق اس ری سٹرکچرنگ، اصلاحات، گھوسٹ ملازمین کے خلاف کریک ڈاؤن، اور میڈیکل بلز میں شفافیت لانے کے ساتھ حکومت سے تقریباً ڈیڑھ سال کے لیے وقتی امداد درکار ہو گی اور اسی وجہ سے بجلی کے بلوں سے 35 روپے ٹی وی فیس ختم کی گئی ہے۔

رواں برس جنوری میں وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا کہ سال 24-2023 میں پی ٹی وی کو تین کروڑ روپے کا نقصان ہوا، جبکہ اس دوران اس کی آمدنی متوقع ہدف سے کم اور اخراجات نے بجٹ سے تجاوز کیا۔ ’کیا پی ٹی وی خسارے میں ہے؟‘ اس سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ: ’پی ٹی وی کو اس سال 16 ارب وصول ہونا تھے، جس میں سے 11 ارب روپے وصول ہوئے۔ اس کو خسارہ نہیں کہیں گے، یہ ایک اضافی رقم تھی جو ہمیں وصول ہونی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ وہ واجبات کی ادائیگی ہے جو پی ٹی وی کو صارفین کی جانب سے ہونا تھی، لیکن تاحال نہیں کی گئی ہے۔‘

حکومت کی پی ٹی وی فیس وصولی

رواں برس مارچ میں وفاقی وزارت اطلاعات نے ایوانِ بالا میں جمع کروائی گئی تفصیلات میں سال 2022 سے 2023 کے دوران ٹیلی ویژن فیس کی مد میں اربوں روپے وصول کرنے کا انکشاف کیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل دستاویزات کے مطابق پی ٹی وی نے بجلی کے بلوں کے ذریعے 18 ارب 86 کروڑ روپے سے زائد ٹیلی ویژن فیس وصول کی۔

وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ان دستاویزات میں بتایا کہ پیپکو نے ٹی وی فیس کی مد میں دو سالوں میں بجلی بلوں کے ذریعے 16 ارب 64 کروڑ روپے سے زائد وصول کیے، جبکہ کراچی الیکٹرک نے دو سالوں کے دوران ٹی وی فیس کی مد میں دو ارب 21 کروڑ روپے سے زائد عوام سے وصول کیے۔

دوسری جانب مارچ میں ہی قومی اسمبلی میں وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے جمع کروائی گئی تفصیلات کے مطابق حکومت نے دو سالوں میں ٹیلی ویژن فیس کی مد میں 18 ارب 86 کروڑ 11 لاکھ 90 ہزار روپے وصول کیے۔ ان تفصیلات کے مطابق ٹی وی فیس کی مد میں پیپکو اور کے الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے سال 23-2022 میں نو ارب 23 کروڑ روپے اور 24-2023 میں نو ارب 63 کروڑ روپے حاصل کیے گئے۔

سابق پی ٹی وی افسران کیا کہتے ہیں؟

یوسف بیگ مرزا پی ٹی وی کے مینجنگ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایک اچھے طریقے سے سوچا ہوا عمل ہے۔ میرے خیال میں یہ سیاسی بات ہے، لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے گا کہ ہم نے وہاں سے 35 روپے کم کر دیے ہیں، اس پر لوگوں کا ردِعمل تھا کہ ہم کیوں ادا کریں؟ لیکن یہ کچھ حکومت کی جیب سے نکلے گا۔ جس طرح ریڈیو پاکستان کے لیے پیسہ نکلتا ہے، اسی طرز پر پی ٹی وی کے لیے ہوگا، کیونکہ پی ٹی وی کی آمدنی نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یوسف بیگ مرزا کے مطابق پی ٹی وی پرانے ماڈل پر چل رہا ہے، اسے خود کو ری سٹرکچر کرنا پڑے گا اور اپنے اخراجات پورے کرنا ہوں گے۔ ’وہ چینل جو 18 ارب روپے یا 20 ارب روپے کے ہوں، چاہے وہ چار یا پانچ چینل ہوں یا نجی شعبے میں چل رہے ہوں، اتنی بھاری رقم میں نہیں چلتے۔‘

سابق ایم ڈی پی ٹی وی یوسف بیگ مرزا نے اصلاحات سے متعلق مزید کہا: ’حکومت ادارے کے لیے فنڈنگ کا کوئی مناسب بندوبست کرے، کیونکہ یہ ایک ریاستی ادارہ ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے، لیکن یہ ایک سوچے سمجھے عمل کے تحت ہونا چاہیے، کہ اگر فنڈنگ ہو رہی ہے، تو اس کے نتیجے میں 80 فیصد تنخواہوں یا پنشن میں نہیں جا رہی۔ یہاں کچھ کام ریاست کا ہے، جبکہ ادارے کو اچھا مواد بنا کے نشر کرنا ہے۔‘

اس ضمن میں پی ٹی وی کے سابق سینیئر افسران کا اسلام آباد میں اجلاس ہوا جہاں اس حکومتی فیصلے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ سابق کنٹرولر نیوز پی ٹی وی عصمت اللہ نیازی اس اجلاس کا حصہ تھے اور اس معاملے کو دیگر سابق افسران کے ہمراہ دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے سے پی ٹی وی کی مجموعی کارکردگی کے لیے شدید نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ’حکومت نے یہ فیصلہ کرتے وقت ماہرینِ ابلاغیات سے مشاورت کی اور نہ ہی ٹی وی نشریات کے بنیادی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ لائسنس فیس ختم کرنے پر گذشتہ چھ ماہ سے بحث جاری تھی۔ سب سے پہلے اس سے متعلق خبریں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کے نجی چینل 24 نیوز سے چلنا شروع ہوئیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ موضوع کہیں بھی زیرِ گفتگو نہیں تھا۔ لیکن اس وقت سے لے کر اب تک اس فیس کے ختم کیے جانے کا متبادل نہیں دیا گیا۔

عصمت اللہ نیازی نے انکشاف کیا کہ پی ٹی وی لائسنس فیس پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی لاگو ہے۔ برطانیہ میں یہ فیس دو ہزار 800 پاکستانی روپے، جرمنی میں تین ہزار 200 پاکستانی روپے، سوئٹزرلینڈ میں چار ہزار 800 پاکستانی روپے اور ڈنمارک میں پانچ ہزار روپے ہے۔ اس طرح دیگر ممالک میں یہ فیس نافذالعمل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان