حکومتی اپیل کی سماعت کرنے والی ایک امریکی عدالت نے جمعے کو نائن الیون کے مرکزی منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کے ساتھ کیے گئے اس معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے جس کے تحت ان کی سزائے موت ختم ہو سکتی تھی اور ان کے مقدمے کی طویل قانونی داستان کو انجام تک پہنچانے میں مدد ملتی۔
خالد شیخ محمد کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی وجہ سے 2001 کے حملوں کے کچھ متاثرین کے رشتہ داروں میں غم و غصہ پیدا ہوا۔ سابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے گذشتہ سال اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون حملوں کے متاثرین کے رشتہ داروں اور امریکی عوام دونوں کو حق حاصل ہے کہ وہ ملزموں پر مقدمہ چلتا ہوا دیکھیں۔
اپیل کورٹ کی جج پیٹریشیا ملیٹ اور نیومی راؤ نے لکھا کہ آسٹن نے ’اپنے قانونی اختیارات کے دائرے میں رہ کر عمل کیا اور ہم ان کے فیصلے پر سوال نہیں اٹھاتے۔‘
خالد شیخ محمد کے ساتھ ساتھ ان کے دو مبینہ ساتھیوں ولید بن عطاش اور مصطفیٰ الحساوی کے ساتھ پلی بارگین کے معاہدوں کا گذشتہ سال جولائی کے آخر میں اعلان کیا گیا۔
اس فیصلے کے بعد برسوں سے جاری عدالتی کارروائی کے باوجود ان کے مقدمات خاتمے کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دیے۔ اس دوران ملزم کیوبا میں گوانتانامو بے فوجی اڈے پر قید تھے۔ آسٹن نے یہ معاہدے سامنے آنے کے صرف دو دن بعد واپس لے لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اہم معاملے کا فیصلہ کرنا ان کا اختیار ہے۔
بعد میں انہوں نے کہا کہ ’متاثرہ افراد کے خاندانوں، ہمارے فوجیوں اور امریکی عوام کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اس معاملے میں فوجی کمیشن میں مقدمات کی سماعت ہوتی دیکھیں۔‘
ایک فوجی جج نے نومبر میں فیصلہ دیا کہ یہ معاہدے درست اور قابل عمل ہیں لیکن حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔
جمعے کو اپیل کورٹ کے ججوں نے ’چھ نومبر 2024 کے فوجی جج کے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا جس کے تحت وزیر دفاع کو مقدمے چلنے سے قبل معاہدے واپس لینے سے روکا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ججوں نے فوجی جج کو ’ایسی سماعتوں سے روک دیا جن میں ملزمان قصوروار کی درخواست دینی تھی یا مقدمے سے قبل ہونے والے معاہدے واپس لیے جانے کے بعد کوئی اور قدم اٹھانا تھا۔‘
نائن الیون کے ملزموں کے مقدمات سے متعلق زیادہ تر قانونی بحث اس بات پر مرکوز رہی کہ سی آئی اے کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد منصفانہ ٹرائل ممکن ہے یا نہیں؟ یہ ایک مشکل مسئلہ ہے جس سے پلی بارگین کے معاہدوں کے تحت بچا جا سکتا تھا۔
خالد شیخ محمد کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے سب سے قابل اعتماد ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہیں مارچ 2003 میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے تین سال سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں گزارے، پھر 2006 میں گوانتانامو پہنچے۔
خالد شیخ محمد، جو تربیت یافتہ انجینئر ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے نائن الیون حملوں کی ’ابتدا سے انتہا تک‘ منصوبہ بندی کی، امریکہ کے خلاف کئی بڑے حملوں میں ملوث رہے، جہاں وہ یونیورسٹی میں بھی پڑھ چکے تھے۔
امریکہ نے گوانتانامو، جو ایک الگ تھلگ بحری اڈہ ہے، کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران پکڑے گئے شدت پسندوں کو رکھنے کے لیے استعمال کیا تاکہ ملزمان امریکی قانون کے تحت حقوق کا مطالبہ نہ کر سکیں۔
عروج کے دور میں اس اڈے پر تقریباً 800 قیدی تھے، لیکن بعد میں ان میں سے بیشتر کو دیگر ممالک میں منتقل کر دیا گیا۔ اب وہاں بہت کم قیدی رہ گئے ہیں۔