ٹیسلا اب ایسی الیکٹرک کار کی مانند نظر آنے لگی ہے جس کی بیٹری موٹروے کے بیچ میں ختم ہو گئی ہو۔
مدد کریں۔ ہنگامی امداد کے نمبر پر فون کریں۔ ایلون مسک کی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی نے یورپ میں مسلسل پانچویں مہینے فروخت میں کمی رپورٹ کی ہے۔ یہ بات یورپی آٹوموبائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے سی ای اے) نے بتائی۔
یہ ایسے وقت میں ہوا جب اس تجارتی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین میں ای وی کی مانگ بڑھ رہی ہے اور اس سال اب تک نئی رجسٹریشن میں 26.1 فیصد اضافہ ہوا جب کہ مئی میں بھی یہ شرح 25 فیصد رہی۔
برطانیہ اور دیگر غیر یورپی یونین کے ممالک کو بھی شامل کیا جائے تو پورے یورپ میں بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت میں مئی میں 27.2 فیصد اور اس سال اب تک 27.8 فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے برعکس ٹیسلا کی فروخت میں نمایاں کمی آئی۔ اس سال اب تک یورپی یونین میں اس کی نئی رجسٹریشن میں پانچ ماہ کے دوران 45.2 فیصد اور مئی میں 40.5 فیصد کمی ہوئی۔
پورے یورپ میں یہ کمی بالترتیب 37.1 فیصد اور 27.9 فیصد رہی۔ ایک پھلتی پھولتی مارکیٹ میں فروخت کا یوں گرنا اچھی علامت نہیں۔
میں نے کبھی لکھا تھا کہ مسک کی کمپنی ٹیسلا الیکٹرک گاڑیوں کی دنیا کی آوڈی، بی ایم ڈبلیو یا مرسڈیز ہے۔
یہ سماجی مرتبے کا اظہار کرنے والی کار تھی، یعنی ’میری طرف دیکھو، میرے پاس ٹیسلا ہے۔‘ یہ گاڑی امیر لوگوں کے لیے ایک علامت بن گئی۔
اب وقت بدل گیا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ٹیسلا کے پرانے ماڈلز کو جدید بنانے کی ضرورت ہے اور چین سے آنے والی سستی گاڑیاں بھی حقیقی خطرہ ہیں۔
مگر خود ایلون مسک کی متنازع شخصیت نے بھی ٹیسلا کے لوگو کو نقصان پہنچایا۔
ٹیسلا گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کے واقعات بھی پیش آئے، جو قابل مذمت ہیں۔
اگر آپ ایلون مسک کی باتوں یا حرکات پر ناراض ہیں تو بہتر یہی ہے کہ انہیں مالی طور نقصان پہنچائیں جیسا کہ زیادہ سمجھ دار بڑی تعداد میں یورپی لوگ اس برانڈ کو چھوڑ کر کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں بھی ٹیسلا کی فروخت میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے، حالاں کہ یہاں فلیٹ مینیجرز اس کمپنی کو پسند کرتے ہیں۔
اس سال اب تک فروخت میں 7.8 فیصد کمی آئی جب کہ مئی میں یہ کمی 36 فیصد تک جا پہنچی۔
کیا ان بگڑتے ہوئے حالات کو روکا جا سکتا ہے؟ مسک کا ٹرمپ انتظامیہ سے کنارہ کش ہونا اچھا پہلا قدم تھا۔
لیکن اگر میں مسک کا سٹریٹیجک رابطے کا مشیر ہوتا تو انہیں مشورہ دیتا کہ دفتر میں ہی رہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس سے دور رہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ شاید یہ ممکن نہیں۔ مسک خود کو روک نہیں سکتے۔ تو پھر یوں کریں کہ سیاست سے دور رہیں اور اپنی دوسری کمپنی سپیس ایکس کے کارنامے ہی دکھاتے رہیں۔
یقیناً، راکٹ تباہ ہونے جیسے کچھ مسائل ضرور پیش آئے، لیکن اس کے باوجود سپیس ایکس ایسے کام کر رہی ہے جو سائنس فکشن کے شوقین لوگوں کو بےاختیار متاثر کرتے ہیں۔
شاید مسک کو سیاست سے ہٹ کر کچھ فلاحی کام بھی کرنے چاہییں تاکہ امریکی ادارے یو ایس ایڈ میں مالی کٹوتیوں اور متنازع اقدامات کا ازالہ ہو سکے۔
بہت سے ارب پتی لوگ معاشرے کو ’لوٹانے‘ کی باتیں کرتے ہیں۔ بس ایک سوچ ہی ہے۔
لیکن اگر یہ گراوٹ جاری رہی تو کیا مسک عہدہ چھوڑ سکتے ہیں؟ یہ سوچنا بھی مشکل ہے اور میرے خیال میں اس کا امکان بہت کم ہے۔
لیکن رواں سال کے شروع میں وال سٹریٹ جرنل نے، جو کاروباری خبروں کا معتبر ذریعہ ہے، رپورٹ کیا کہ ٹیسلا کے بورڈ ارکان ممکنہ جانشینوں کے لیے ریکروٹرز سے رابطہ کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ کی فوراً اور شدت سے تردید کر دی گئی، لیکن قیاس آرائیاں جاری ہیں، اور اس میں کچھ منطق بھی ہے۔
مسک روایتی انداز سے ہٹ کر کام کرنے والے انسان ہیں۔ یہی چیز انہیں آگے بڑھاتی ہے اور ان کے کاروباری سفر کا اہم حصہ رہی ہے۔
2004 میں اپنی ابتدائی سرمایہ کاری کے بعد ٹیسلا کو کامیابی کی طرف لے جا کر انہوں نے آٹو انڈسٹری کو بدل کر رکھ دیا، ای وی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور مقابلے میں موجود کمپنیوں کو بھی جدت پر مجبور کیا۔
مگر اب ٹیسلا خود اس نظام کا حصہ بن چکی ہے اور اس کی درمیانی سے طویل مدتی مستقبل کے لیے شاید زیادہ روایتی سی ای او کی ضرورت ہو۔ کوئی ایسا شخص جو تھوڑا زیادہ سنجیدہ ہو۔
اس عہدے کے لیے کون سے نام زیر غور آ سکتے ہیں؟ جے بی سٹراؤبل، جو مسک کے قریبی ساتھی ہیں اور ان دنوں بیٹری ری سائیکلنگ سٹارٹ اپ ریڈووڈ مٹیریلز چلا رہے ہیں، اکثر ذکر میں آتے ہیں اور وہ ٹیسلا کے بورڈ کا حصہ بھی ہیں۔
کمپنی کے اندر مسک کے دست راست امید اشفر کو بھی اہم امیدوار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ٹام ژو بھی نمایاں ہیں جو چین میں ٹیسلا کے معاملات سنبھال رہے ہیں۔
چیف فنانشل آفیسر ویبھو تنیجا بھی ایک ممکنہ امیدوار ہیں، اگرچہ سی ایف او سے سی ای او بننا ہر بار کامیاب نہیں ہوتا۔
نسبتاً کم امکان ہونے کے باوجود سپیس ایکس کی صدر اور چیف آپریٹنگ آفیسر گوین شوٹ ویل کا نام بھی زیر غور آ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان سب کے لیے اصل مسئلہ یہ ہو گا کہ مسک ٹیسلا کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا اثرورسوخ بہت وسیع ہے۔
کمپنی کے شیئر ہولڈرز نے حال ہی میں کافی اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا۔
اب ٹیسلا کے ایک شیئر کی قیمت 340 ڈالر سے کچھ زیادہ ہے، جو دسمبر میں ملنے والی 480 ڈالر کی سب سے زیادہ قیمت سے کافی کم ہے، جب ٹرمپ صدارت سنبھالنے کی تیاری کر رہے تھے اور مسک ان کے قریبی دوست تھے۔
تاہم اگر آپ نے گذشتہ سال اسی وقت 100 ڈالر لگائے ہوتے تو آج وہ 184 ڈالر ہوتے۔ یہ اچھا ریٹرن ہے۔
ان شیئرز کو پرجوش سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد سہارا دیے ہوئے ہے، جن میں اربوں ڈالر سنبھالنے والے بڑے اداروں کے فنڈ مینیجرز بھی شامل ہیں۔
وہ اب بھی توقع رکھتے ہیں کہ مسک جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور ٹیسلا کی تیز رفتار ترقی واپس لے آئیں گے۔
دنیا میں عجیب تر واقعات بھی ہو چکے ہیں۔ آپ اس شخص کو ناپسند کر سکتے ہیں، لیکن صرف کوئی بےوقوف ہی ان کی صلاحیتوں کو کمتر سمجھے گا۔
اگر مسک عہدہ چھوڑتے ہیں تو اس کی سب سے قریبی مثال سٹیو جابز کا ایپل کو چھوڑنا ہو سکتی ہے۔
جابز کی بےوقت موت کے بعد ٹم کک کو عہدہ ملا، جنہوں نے خود کو کامیاب جانشین ثابت کیا۔
مگر جب جابز پہلی بار ایپل سے الگ ہوئے تھے تو حالات اچھے نہیں رہے اور آخرکار جابز کو ہی واپس آ کر کمپنی کو سنبھالنا پڑا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ٹیسلا مسک پر اس سے کہیں زیادہ انحصار کرتی ہے جتنا ایپل اپنے عروج کے زمانے میں سٹیو جابز پر کرتی تھی۔
© The Independent