پاپ کارن کی عالمی قلت کی افواہیں یقیناً مبالغہ آرائی ہیں، لیکن میگ زٹ (Megxit) کے بعد سب سے دھماکہ خیز عوامی لڑائی دیکھنا اب تک خاصا دلچسپ رہا ہے۔
میڈیا، اور خاص طور پر ایلون مسک کے اپنے ایکس چینل پر ٹوٹے برتنوں کی یہ مسلسل بارش تو چلتی ہی رہے گی، مگر دونوں افراد کے لیے یہ صدمہ انگیز تجربہ کچھ عملی نتائج ضرور چھوڑے گا۔
فی الحال یہ طے نہیں کہ جیتے گا کون۔ شاید آخر میں کوئی بھی نہ جیتے، اور دونوں ایک دوسرے کی تباہی میں پھنسے ہوئے، ہنری کسنجر کے ایران-عراق جنگ سے متعلق مشہور قول کو جھوٹا ثابت کر دیں، ’افسوس کہ دونوں ہار نہیں سکتے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ یقینی نہیں تھا کہ ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ ’برومانس‘یوں انجام کو پہنچے گا۔ امکان ففٹی ففٹی تھا۔ آخرکار، مسک نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ ڈونلڈ سے ’اتنی محبت کرتے ہیں جتنی ایک ’سٹریٹ‘ مرد دوسرے مرد سے کر سکتا ہے۔‘
دنیا کے امیر ترین آدمی کے پاس پیسہ اور اثرورسوخ تھا جسے انتخاب جیتنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا، خود مسک کے مطابق 25 کروڑ ڈالر اور ایکس پلیٹ فارم کی درپردہ حمایت، جہاں ٹرمپ کے لیے سازشی نظریات اور ماگا پروپیگنڈا کو جگہ دی جا رہی تھی۔ دوسری طرف، ٹرمپ کے حالیہ بیانات ثابت کرتے ہیں، مسک کے کاروبار کو خوب پروان چڑھا سکتے تھے: سیٹلائٹ، الیکٹرک گاڑیاں، اور مسک کا (اگرچہ پاگل پن پر مبنی) مریخ پر قبضے کا مشن۔
یہ تعلق جنت میں طے شدہ تو نہ تھا (زیادہ تر مار-اے-لاگو میں)، مگر دونوں کا مشترکہ دشمن ایک تھا، ’ووک مائنڈ وائرس۔‘ لہٰذا شراکت داری بن سکتی تھی۔
مگر، جیسا کہ اب اتفاقِ رائے سے بات سامنے آ رہی ہے کہ مسئلہ ان کی بے پناہ انا کا تھا۔ اس رفاقت کے اس قدر تیزی سے ختم ہونے نے ہر پیش گوئی کو پیچھے چھوڑ دیا، اور شاید ابھی کھیل ختم نہیں ہوا۔
اقتصادی لحاظ سے فی الحال بہت بڑی تبدیلی کی توقع نہیں۔ ٹیسلا کے شیئرز گر گئے ہیں، لیکن مجموعی منظرنامے میں یہ کوئی خاص بات نہیں۔ مسک کے پاس صرف 12 فیصد حصہ ہے اور شاید کمپنی کا مستقبل کسی اور کے ہاتھوں میں بہتر ہو۔ (خلائی کمپنی) سپیس ایکس کی مارکیٹ پوزیشن اتنی مضبوط ہے کہ صرف نیشنلائزیشن (جیسے سٹیو بینن کا مشورہ ہے) ہی کچھ فرق ڈال سکتی ہے، اور تب بھی سیٹلائٹ تو وہیں رہیں گے۔
جہاں تک معیشت کا تعلق ہے، مسک بالکل درست کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کا ’بڑا، خوبصورت بل‘ مالیاتی تباہی ہے، اور غالب امکان ہے کہ ان کے انتشار بھرے تجارتی ٹیکس امریکہ کو اس سال کساد بازاری میں دھکیل دیں گے۔
ڈوج کوائن اور دیگر ’بچتیں‘ امریکی معیشت کے کل منظرنامے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں مسک محض وہی کہہ رہے ہیں جو واضح ہے، سچ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ٹرمپ کی پالیسی پر اثرانداز نہیں ہو سکتے تھے، اور سچ یہ بھی ہے کہ جب وہ وائٹ ہاؤس میں تھے تو انہوں نے ٹرمپ سے اختلاف کی جرات بھی نہیں کی۔
تکنیکی دنیا کا یہ سپر سٹار اس وقت ’فرسٹ برادر‘ بننے کے نشے میں تھا، جبکہ ٹرمپ اس سے وہی مشورہ لیتے جتنا کہ وہ میلانیا سے لیتے ہیں (اور سچ تو یہ ہے کہ اگر لیتے تو شاید بہتر صدر ہوتے)۔
سیاسی طور پر بھی اثرات محدود ہوں گے، لیکن اس حد تک اہم کہ امریکہ جیسی تقسیم شدہ قوم میں ہر چھوٹا جھٹکا بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ ٹرمپ اپنی مسلسل دھاندلی کے دعووں کے باوجود پچھلے نومبر کی مبینہ ’لینڈ سلائیڈ فتح‘ کے بعد بھی ملک کو مزید تقسیم کیے بیٹھے ہیں۔
مسک ایک نئی پارٹی بنانے کی بات کر رہے ہیں تاکہ ڈیموکریٹ اور رپبلکن کی اجارہ داری توڑی جا سکے، مگر امریکی نظام میں ایسی کوئی انقلابی جماعت گزرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ میں مسک کے ہم مزاج ڈومینک کمنگز بھی اپنے ’برٹش ٹرمپ‘ بورس جانسن سے علیحدگی کے بعد ایسی ہی خواب دیکھ چکے ہیں۔ اور ویسے بھی، ماگا (MAGA) پہلے ہی رپبلکن پارٹی میں دیمک کی طرح گھر کر چکا ہے، جو باہر سے تو پارٹی جیسا لگتی ہے، مگر اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔
تاہم، مسک اگر کوئی سیاسی گروپ بناتے ہیں تو وہ ٹرمپ کے لیے مستقل دردِ سر بن سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی اور ماگا امیدواروں کی شکست کے لیے مسک اپنی دولت اور ایکس پلیٹ فارم کے ذریعے خاص انتخابی حلقے ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور سچ یہ ہے کہ چاہے درست ہو یا غلط، مسک اپنی خبروں، الزامات، ایپسٹین کیس کی افواہوں اور ٹرمپ کی ذاتی زندگی کے سکینڈلوں کو اتنی شدت سے اچھال سکتے ہیں کہ ٹرمپ کی نیند اڑ جائے۔ اور اگر یہ کافی نہ ہو تو مسک کی خفیہ خواہش بھی یہی ہے کہ کسی طرح ٹرمپ کو پاگل قرار دے کر انہیں ہٹا دیا جائے اور جے ڈی وینس کو صدارت دی جائے — اور یہ وہ مشورہ ہے جس کی مسک حمایت بھی کر چکے ہیں۔
دوسری طرف، سٹیو بینن کے مشورے پر چلتے ہوئے ٹرمپ بھی مسک کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سرکاری معاہدے منسوخ کر سکتے ہیں، نئے ضوابط عائد کر سکتے ہیں، الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی ختم کر سکتے ہیں، بھاری ٹیکس لگا سکتے ہیں، ان پر تحقیقات کرا سکتے ہیں، مسک کو ملک بدر کر سکتے ہیں یا کسی فرضی الزام میں جیل بھیج سکتے ہیں۔
ذرا تصور کریں اگر مسک جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامافوسا سے جنوبی افریقہ میں پناہ مانگ لیں، وہی رامافوسا جو وائٹ ہاؤس میں مسک کی موجودگی میں تذلیل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یا برطانوی شہریت کی درخواست دے دیں۔ شاید برطانوی معیشت کے لیے ہی بہتر ہو؟
خلاصہ یہ کہ اس لڑائی میں دونوں اپنی سب سے پیاری چیزیں، دولت، عزت اور اختیار، ضرور کھوئیں گے۔
جہاں تک امریکی معیشت اور عالمی صورت حال کا تعلق ہے، وہ پہلے سے ہی ٹرمپ کے دونوں ادوار میں بدنظمی اور غیر یقینی کا شکار تھی، اور اب یہ نئی خانہ جنگی مزید بیچینی اور ہنگامہ خیزی کا باعث بنے گی۔ تجارت، سرمایہ کاری، روزگار، اور دنیا بھر کے لوگوں کے معیارِ زندگی پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔
اور ہم؟ اس رشتے کے ٹوٹنے میں، جس میں دونوں مرکزی کردار کمزور ہو کر سامنے آئیں گے، ہم باقی سب بچوں کی طرح ہیں، انجام جو بھی ہو، تکلیف ہمیں ہی ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent