نوبیل امن انعام کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا حریف

ٹرمپ کی نوبیل انعام حاصل کرنے کی خواہش کے درمیان ایک اور امریکی رہنما منظرِ عام پر آیا ہے جو یوکرین میں جنگ بندی میں بھی کوشاں ہے۔

28 مارچ 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

محض 24  گھنٹوں میں جنگ ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں جیسا کہ خود کو ’امن کا علم بردار‘ کہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب سمجھ آ رہا ہے۔ حتیٰ کہ جب کسی ایسی جنگ کو ختم کرنے کی بات ہو جس میں ایک جنونی حکمران جوہری طاقت کے ساتھ اپنے دلیر اور جمہوری ہمسائے پر قبضہ کرنا چاہتا ہو تو چار مہینے کا وقت بھی کم لگتا ہے۔

یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی کا ہتھیار ڈالنے سے انکار نہ صرف ٹرمپ کی امن کی کوششوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کی نوبیل انعام کی امیدوں کے لیے بھی مسئلہ بن سکتا ہے، وہ انعام جس کی اوول آفس کے اس خود پسند مکین کو شدید خواہش ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہی اس کے اصل حقدار ہیں۔

ٹرمپ کے لیے یہ عالمی اعزاز سب سے بڑی پہچان ہو گی۔ یہ انہیں محض پانچ امریکی صدور کی فہرست میں شامل کر دے گا جنہیں یہ انعام ملا ہے۔ ان کے حریف باراک اوباما کو 2009 میں یہ انعام صرف آٹھ ماہ بعد ہی مل گیا تھا حالانکہ اسی دوران انہوں نے افغانستان میں 30 ہزار مزید فوجی بھیجے اور پاکستان پر ڈرون حملے شروع کیے اور یہ سب ’انسداد دہشت گردی‘ کے دائرہ کار میں تھا۔

یوکرین اور روس کے درمیان امن قائم کرنے کے اپنے دعوے میں ٹرمپ کو اب ایک حریف کا سامنا ہے۔ اب ایک اور امریکی شہری میدان میں ہے اور وہ ہیں پوپ لیو چہار دہم۔

یہ آثار ظاہر ہو چکے ہیں کہ لیو اپنی نئی عالمی حیثیت کو تنازعات کے حل میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اسی ہفتے یہ بات سامنے آئی کہ پوپ نے اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی سے کہا ہے کہ وہ ویٹی کن میں روس اور یوکرین کے درمیان اگلے امن مذاکرات کی میزبانی کرنا چاہتے ہیں۔

اپنے افتتاحی خطاب میں نئے پوپ نے تین جنگ زدہ خطوں یعنی غزہ، میانمار اور یوکرین میں امن کی اپیل کی جہاں ان کے الفاظ میں ’ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے مذاکرات کا انتظار ہے، نہ کہ کسی عارضی اور کمزور جنگ بندی کا۔‘

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Independent Urdu (@indyurdu)

پوپ اور صدر ٹرمپ میں ایک ہی بات مشترک ہے اور وہ ہے امریکی شہری ہونا لیکن ان کی زندگی کے انتخاب کافی مختلف ہیں۔ لیو نے دہائیاں اگسٹینی پادری کے طور پر گزاری ہیں، لوگوں کی مدد کی ہے جب کہ ٹرمپ کا ریکارڈ اس سے بہت مختلف ہے۔

پوپ فرانسس کو رواں سال کے امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن ان کی پچھلے مہینے وفات کے بعد یہ امکان ختم ہو گیا کیونکہ یہ انعام مرنے والوں کو نہیں دیا جاتا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوبیل کمیٹی بجائے کسی مخصوص فرد کے پوپ کے عہدے یا ویٹی کن کے ادارے کو انعام دینے پر غور کرے گی؟

یہ ممکن ہے کہ پوپ فرانسس کی خدمات کا اثاثہ ویٹی کن کے جیتنے کے امکانات کو بڑھا دے۔ امریکہ اور کیوبا کے تعلقات کی بحالی میں مدد کے بعد پوپ فرانسس نے ایران اور مغرب کے درمیان مکالمے کے فروغ کے لیے محنت کی اور 2015 میں فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے والی تاریخی پہلی ویٹی کن معاہدے کی بھی سربراہی کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پوپ لیو کی یہ خواہش کہ وہ دنیا کے سب سے بااثر مذہبی رہنما کے طور پر یوکرین میں بامعنی امن کے لیے اپنی طاقت استعمال کریں اور یہ ٹرمپ کے رویے سے بالکل متضاد ہے۔ اسی ہفتے امریکی صدر نے یورپ کی جانب سے ماسکو پر نئی پابندیوں کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے روسی صدر پوتن سے تجارتی سودوں کے لیے جوش و خروش دکھایا تاکہ چین کی کریملن پر گرفت کو کمزور کیا جا سکے۔

شاید ٹرمپ کو لگتا ہے کہ ایک امریکی پوپ کا انتخاب ان کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، شاید پوپ کی امن پسندی کا کچھ اثر ان پر بھی چڑھ جائے؟ انہوں نے فوراً پوپ لیو کے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کی حمایت کرنے والے بھائی لوئس پرووسٹ کو اوول آفس میں بلا کر تصویریں بنوائیں جب کہ صرف ایک دن بعد نائب صدر نے روم میں نئے پوپ سے ملاقات کر ڈالی۔

لیکن صرف اوول آفس کی تصویری نمائش یا غیر حقیقی بیانات سے وہ خلیج ختم نہیں ہو گی جو ٹرمپ انتظامیہ اور ویٹی کن کے درمیان موجود ہے، چاہے وہ پوتن کے ساتھ نرم رویہ ہو، غزہ کے عام شہریوں پر اسرائیلی حملوں پر بے حسی یا تارکین وطن کے حقوق کا مسئلہ۔ ایسے نازک نکات نوبیل امن انعام کی جیوری کو ہرگز متاثر نہیں کریں گے۔

اگر بفرض محال یہ مقابلہ ایک سیاسی فرقے کے رہنما اور ایک مذہبی تحریک کے سربراہ کے درمیان رہ گیا تو جیتنے والا صرف ایک ہی ہو گا۔ اور اگر پوپ لیو کو یہ انعام مل بھی گیا تو انہیں خوشی شہرت یا پہچان سے نہیں بلکہ اس امن سے ہوگی جو وہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ