نور مقدم کا قتل: ’جائے واردات پر جا کر مجھے جھرجھری آ گئی‘

میں اسلام آباد کے ان صحافیوں میں سے ایک ہوں جس نے نور مقدم قتل کے واقعے کو پہلے دن سے کور کیا۔ اس چار ماہ کے دوران میں کیا دیکھتی اور سوچتی رہی، اس کا اندازہ اس تحریر سے ہوگا۔

اسلام آباد کے ایف سیون سیکٹر  میں واقع ظاہر جعفر کے  گھر  کے باہر مونا خان موجود تھیں ،جہاں  نور مقدم کا قتل  ہوا تھا (انڈپینڈنٹ اردو)

وہ منگل کی شام تھی۔ اگلے دن عید الضحیٰ تھی۔ میں تیاری میں مصروف تھی کہ رات ساڑھے دس بجے کے قریب ایک ساتھی رپورٹر سے علم ہوا کہ کسی خاتون کا اسلام آباد میں قتل ہو گیا ہے۔

اس وقت اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ کتنی بڑی خبر ہے کیوں کہ قتل تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور ہم عام طور پر قتل کے انفرادی واقعات کو کور نہیں کرتے۔

بعد میں پتہ چلا کہ یہ معمول کا قتل نہیں ہے۔ مقتولہ سفیر کی بیٹی تھیں اور ان کا قتل بڑے بہیمانہ طریقے سے ہوا ہے، کسی نے انہیں تیز دھار آلے سے قتل کر کے سر دھڑ سے الگ کر دیا ہے۔

یہ سن کر مجھے لگا کہ مجھے سٹوری کرنی چاہیے، یہ سماجی معاملہ ہے لوگوں کی توجہ حاصل کرے گی۔ بس اس کے بعد میں نے پولیس سے رابطہ کیا کیوں کہ مزید مستند معلومات لینا ضروری تھیں۔ پولیس سے تصدیق کے بعد جلدی سے مختصر سٹوری بنائی اور بھیج دی۔

تب تک میں نے واقعے کی سنگینی اور حساسیت کو محسوس نہیں کیا تھا۔ ہاں ایک نوجوان لڑکی کے قتل کا افسوس تھا اور جب یہ پتہ چلا کہ لڑکی کو اس کے دوست نے قتل کیا ہے تو سوال ابھرا یہ کیسا دوست ہے جس نے چھرا ہی گھونپ دیا اور وہ بھی اتنے ظالمانہ انداز میں۔ یہ ہالی وڈ کی کسی ہارر فلم کے سین میں تو سوچا جا سکتا تھا لیکن یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ حقیقت میں ایسا ہوا ہے۔

اگلے دن عید تھی صبح تک سٹوری اور واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا تھا۔ سفارتی حلقے بھی معاملے پر شوکت مقدم کی حمایت میں آگے آ گئے۔ قتل جس انداز سے کیا گیا تھا، اس کے بارے میں سوچ کر ہی جھرجھری سی آ جاتی ہے۔ یہ اسلام آباد کا ہائی پروفائل قتل بن چکا تھا۔ ایف آئی آر کا اندراج بھی ہو گیا تھا جس میں مزید تفصیل سامنے آئی کہ نور کے والد نے اس کمرے میں کیا دیکھا۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ بطور خاتون پہلے دن سے اس واقعے کو کور کرنے میں کیسا محسوس ہوا؟ تو لیکن بطور صحافی عدالتوں اور کرائم کے ایسے بہت کیس دیکھے ہیں تو دل تھوڑا سخت ہو چکا ہے۔ لیکن یہ کیس بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس لیے جذبات بھی کچھ مختلف تھے۔

میرے لیے یہ کیس روزمرہ کی خبر سے بڑھ کر خود محسوس کرنے والا واقعہ اس وقت بنا جب میں رپورٹنگ کرنے کے لیے اس مکان گئی جہاں یہ لرزہ خیز واردات عمل میں آئی تھی۔ اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں واقع ایف سیون میں وہ مکان دیکھ کر مجھے عجیب سی بےچینی محسوس ہونے لگی اور وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔

میں نے وہ مکان دیکھا جہاں قتل ہوا تھا، وہ گیٹ دیکھا جہاں سے اس نے نکلنے کی کوشش کی تھی، وہ کھڑکی دیکھی جہاں سے نور نے چھلانگ لگا کر جان بچانے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔ میں نے وہ راستہ بھی دیکھا جہاں تک تھیراپی ورکس والوں نے سیڑھی کے ذریعے رسائی حاصل کی تھی۔ 

اتفاق کی بات کہ تمام میڈیا نمائندگان میں سے میں پہلی صحافی تھی جس نے یہ مکان ڈھونڈا تھا۔ جب عمارت دیکھی تو تب پہلی بار مجھے وہ وحشت محسوس ہوئی جس نے وہاں ڈیرہ ڈالا ہوا تھا، جیسے کوئی آسیب ہو وہاں جو بتا رہا ہو کہ وہاں کیا ہوا تھا۔

بھورے رنگ کا بڑا سا گیٹ جس کے دروازے پر اخبار لٹکا ہوا تھا۔ شام کے پانچ بج رہے تھے اور اخبار فروش نے اسے دروازے پر رکھا تھا، مگر اسے اٹھانے کے لیے اس وقت تک کوئی نہیں آیا تھا۔ دروازے کے اندر ساتھ ہی گارڈ کا کیبن تھا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ نور اپنی زندگی بچانے یہاں تک آئی تھی تاکہ باہر سڑک پر نکل سکے لیکن مجرم ظاہر جعفر کے کہنے پر محافظ نے کیبن میں بند کر دیا تھا۔ بس ایک دروازہ کھلنے کی دیر تھی تو شاید وہ بچ جاتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مکان کے مین گیٹ سے اندر جھانکا تو سامنے لکڑی کی بنی سیڑھی پڑی تھی۔ اوپر ٹیرس پر دیکھا تو سامنے والے کمرے کی کھڑکی کا پردہ ٹوٹا ہوا تھا جس سے اندازا ہوا کہ تھراپی ورک والے ملازمین اس سیڑھی کی مدد سے ٹیرس پر پہنچے تھے اور کھڑکی سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تھی کیونکہ لاؤنج کا دروازہ ظاہر نے نہیں کھولا تھا۔

وہ آدھا لٹکا اور ٹوٹا ہوا پردہ بھی اپنی کہانی سنا رہا تھا کہ وہاں کیا ہوا۔ پورے مقدمے میں وکیل صفائی کا استفسار تھا کہ اس قتل کا کوئی عینی شاہد نہیں۔ یہ پردہ بول سکتا تو شاید کوئی کہانی سناتا۔

مزید آگے ہو کر دیکھا تو بغل والے کمرے کی کھڑکی کے نیچے ایئر کنڈیشنر کا آؤٹر لگا ہوا تھا، تو دماغ نے پولیس کی بیان کردہ معلومات جو انہوں نے مکان میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل کی تھیں کہ نور مقدم نے جان بچانے کے لیے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ بھی لگائی تھی آنکھوں کے آگے گھوم گیا۔

وہاں رہ کر میرے دماغ میں پورے واقعے کی فلم چلنے لگی۔ اسی دوران مجھے ایک لمحے کو لگا کہ کسی نے واقعی بالائی منزل کے بغل والے کمرے سے چھلانگ لگائی ہو اور نیچے چوکیدار کے کییبن تک آئی ہو اور کوئی اسے گھسیٹ کر اندر لے گیا ہو۔ حقیقت میں ایسا وہاں اس وقت کچھ نہیں تھا لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج کے مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔

مجھے اس وقت اس مکان کا چپہ چپہ بین کرتا ہوا محسوس ہوا وہ دیواریں، کھڑکی، کیبن سب سے آوازیں آ رہی تھیں جیسے وہ نور پر بیتے ظلم کی داستان سنا رہے ہوں کہ وہاں کیا ظلم ہوا ہے۔ کمرے کی کھڑکی کے ٹوٹے پردے سے بھی لگا کوئی جھانک رہا ہے لیکن وہ میرا وہم تھا۔ شاید وہاں جا کر ہر منظر خود میری آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔

کمرے سیل تھے اس لیے اندر نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ پولیس نے شواہد ضائع ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر انہیں بند کر دیا تھا۔

میں نے ایس ایس پی آپریشن مصطفی تنویر سے پوچھا کہ ’آپ تو کمرے میں گئے تھے جہاں قتل ہوا تھا، وہاں کیا منظر تھا؟‘

انہوں نے بتایا کہ ’بطور پولیس آفیسر زندگی میں بہت خوفناک قتل دیکھے ہیں، لیکن یہ واحد ایسا قتل ہے کہ جائے وقوعہ سے واپس جا کر دو دن کھانا نہیں کھا سکا اور نہ سو سکا۔‘

اس کے بعد میں نے اپنی ویڈیو ریکارڈ کی اور واپس آ گئی۔ میں نور مقدم کو ذاتی طور پر نہیں جانتی اور نہ میرا اس ’ایلیٹ کلاس‘ سے تعلق ہے لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج اور پھر وہ مکان دیکھنے کے بعد یہ سب میرے دماغ میں نقش ہو چکا تھا۔

جب قاتل کو پہلی بار قریب سے دیکھا تو عجیب خوف محسوس ہوا۔ ایسا شخص جس کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں تھا۔ سفاک آنکھیں جو کسی کو بھی دیکھیں تو خوف آ جائے اور جب آپ کو یہ علم ہو کہ اس شخص نے کس بے رحمی سے ایک بے قصور لڑکی کو ذاتی رنجش پہ قتل کیا ہے تو اثر کئی گنا زیادہ محسوس ہوتا ہے۔

پھر جب جب سماعت ہوئی مجھے اس مقدمے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے میرا دل بھی لاکھوں پاکستانیوں کے طرح جلد فیصلے کی خواہش رکھتا تھا لیکن قانون اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ سست بھی ہوتا ہے۔ چار ماہ اور کچھ دن لگے لیکن فیصلہ وہ آیا جس کی اکثر لوگ توقع کر رہے تھے۔

فیصلے کے دن قاتل ظاہر جعفر کو دیکھ کر اندازہ ہوا اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ اسے سزائے موت ہی ہونی ہے کیونکہ اس سے زیادہ کس کو علم تھا کہ اس نے کیا ظلم کیا تھا۔ جب پولیس اسے جج کے سامنے لے کر آئی تو وہ پھٹی آنکھوں سے سکتے کے عالم میں بس جج کو دیکھ رہا تھا۔ دس سیکنڈ تک جج کو گھورتا رہا جس کے بعد پولیس اسے وہاں سے ہٹا کر لے گئی۔

قاتل مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر تھا لیکن جو وحشت اس وقت اس میں تھی وہ چند قدموں کے فاصلے سے بھی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ میرے سامنے ایک ’پڑھا لکھا‘ اور امیر گھرانے کا سپوت کھڑا تھا۔ میں سوچتی رہ گئی کہ غلطی اس کی تو تھی ہی لیکن اس معاشرے کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کیا قتل سے قبل ہم نے اس کے رویے میں ایسا کچھ مس کیا جو اس سانحے سے ہمیں بلکہ سب سے زیادہ ایک زندگی بچا سکتا تھا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی