14 اگست 1947 کا دن، ریڈیو پر آزادی کا اعلان اور اپنے گھر کی چھت پر سبز و سفید ساڑھیاں کاٹ کر بنایا گیا پاکستان کا پرچم لہرانا انجم وسیم اکرام کی یادداشت کا اہم لمحہ ہے۔
کراچی کی رہائشی 91 سالہ انجم وسیم اکرام ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا۔ ان کے والد ڈاکٹر عبدالحمید بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مشیر رہے، اور پاکستان کے پہلے چیف انجینیئر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
انجم وسیم اکرام نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ماضی کی یادوں کے دریچے کھولے اور کئی ان کہی باتوں کو زبان دی۔
انجم وسیم اکرام بتاتی ہیں کہ پاکستان کی آزادی کا اعلان آج بھی ان کے ذہن میں کسی فلمی منظر کی طرح محفوظ ہے۔ وہ دن، وہ لمحہ جب ریڈیو پر پہلی بار ’ہم ریڈیو پاکستان سے بات کر رہے ہیں‘ کی آواز گونجی، ان کے گھر میں ایک جشن کا سماں بن گیا۔ وہ اس وقت لاہور میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہم سب بہن بھائی ریڈیو کے گرد جمع تھے۔ جیسے ہی اعلان ہوا، ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم نے فوراً سبز اور سفید رنگ کی ساڑھیاں نکالیں۔ میں نے اپنی ساڑھی میں سفید رنگ کا ٹکڑا شامل کیا، جو اقلیتوں کی نمائندگی کرتا تھا اور سبز رنگ کے کپڑے کو اس کے ساتھ جوڑ کر اپنے گھر کی چھت پر ایک پرچم سا بلند کیا۔ ہمارے سامنے ایک ہندو خاندان رہتا تھا، جو حیرت سے ہمیں دیکھ رہا تھا کہ پاکستان بن گیا؟ وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریڈیو کی آواز ابھی ذہنوں میں گونج ہی رہی تھی کہ اچانک ان کے والد ڈاکٹر عبدالحمید کا نام لیا گیا۔ ریڈیو سے سنائی دیا: ’ڈاکٹر عبدالحمید پاکستان کے پہلے چیف انجینیئر مقرر کیے گئے ہیں۔‘ یہ لمحہ ان کے لیے فخر اور خوشی کا سنگم تھا۔
انجم وسیم نے بتایا کہ ان کے والد انگریزوں کے دور میں 50 برس کی عمر میں ریٹائر ہوئے کیونکہ اس دور میں یہی ریٹائرمنٹ کی عمر تھی، مگر حکومت نے ان کی خدمات سے محروم ہونا قبول نہ کیا۔
یوں وہ سٹی گورنمنٹ کے ایڈوائزر بنائے گئے اور یہی وہ وقت تھا جب ان کی قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ڈاکٹر عبدالحمید قائداعظم سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور یہی جذبات انجم وسیم کے دل میں بھی منتقل ہوئے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں یاد ہے کہ قائد اعظم سے ان کے والد کی کیا باتیں ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے اپنی یادداشت کے دھندلے گوشوں سے جھانکتے ایک منظر کا ذکر کیا۔ وہ کہتی ہیں: ’مجھے یاد ہے کہ والد صاحب اور قائداعظم کے درمیان پاکستان کے لیے علیحدہ ڈیم بنانے کی باتیں ہوتی تھیں۔ میرے والد کو نہروں، پانی کے بہاؤ اور تکنیکی معاملات پر گہری دسترس حاصل تھی۔ قائداعظم پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں پر ان سے مشاورت کرتے تھے۔‘
قیامِ پاکستان سے پہلے ان کا خاندان شملہ چلا گیا تھا کیونکہ ان کے والد کی پوسٹنگ ہوتی رہتی تھی۔ وہاں ایک موقعے پر اعلان ہوا کہ قائداعظم خواتین کے ایک جلسے میں خطاب کریں گے۔ انجم وسیم اپنی والدہ کے ساتھ وہاں پہنچیں اور قائداعظم کو بہت قریب سے دیکھا۔
وہ بتاتی ہیں: ’انہوں نے بھورے رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی۔ ان کی شخصیت نہایت سادہ اور باوقار تھی۔ تقریر کے الفاظ تو یاد نہیں مگر خواتین کے اس تاریخی جلسے کی جھلکیاں آج بھی میری آنکھوں میں محفوظ ہیں۔‘
انجم وسیم نے مزید بتایا کہ ان کے بھائی نے ایک موقعے پر لاہور کے ایف سی کالج میں قائداعظم سے ملاقات کی اور ان کا سکیچ بنانے کی اجازت مانگی، جو انہیں دی گئی۔ سکیچ بنانے کے بعد وہ قائداعظم کو پیش کیا گیا، جو ان کی یادوں کا ایک اور انمول حصہ ہے۔
قائداعظم کے انتقال کے بارے میں بات کرتے ہوئے انجم وسیم اکرام کی آواز بھرا گئی۔ انہوں نے کہا: ’مجھے یاد ہے کہ جب قائداعظم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو میرے والد زاروقطار روئے۔ وہ قائداعظم کی شخصیت اور خدمات کے سچے مداح تھے۔‘
ایک دلچسپ اور نایاب بات انجم وسیم نے یہ بھی بتائی کہ ان کے گھر میں آج بھی قائداعظم محمد علی جناح کا استعمال شدہ فرنیچر موجود ہے۔ یہ فرنیچر ان کے سسر نے خریدا تھا، پھر ان کے شوہر نے اس کی حفاظت کی اور اب ان کے بیٹے اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس تاریخی فرنیچر میں ایک سٹڈی میز اور دو اقسام کے صوفہ سیٹ شامل ہیں، جو آج بھی ان کے گھر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
انجم وسیم کے مطابق: ’آج پاکستان کو بنے 78 سال ہو چکے ہیں۔ میں نے پاکستان کے قیام سے اب تک کئی ادوار دیکھے ہیں۔ جب قائداعظم نے ہمیں یہ وطن دیا، اس وقت ہر طرف جوش و خروش، اتحاد اور یگانگت کا ماحول تھا۔ سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جائے۔‘
مگر آج کے پاکستان کو دیکھ کر وہ افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کا خواب جناح نے دیکھا تھا۔ اگر ہمارے لیڈر اپنی سوچ کا زاویہ بدل لیں، ایمانداری کو شعار بنا لیں، تو جناح کا پاکستان لوٹ سکتا ہے۔‘