تقسیمِ ہند کے وقت کی کہانیاں بزرگوں کی زبانی سنانے والے وی لاگر

میانوالی کے علاقے پپلاں کے رہائشی ملک محمد طارق اکبر 1947 میں تقسیم ہند کے وقت ہندوستان سے نقل مکانی کرکے پاکستان آنے والے افراد کی داستانیں ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔

’جب ہم تقسیمِ ہند کے وقت کرنال سے ہجرت کرکے ریلوے سٹیشن پہنچے تو ہم گھر کے افراد دو بیل گاڑیوں میں اپنے گاؤں سے ریلوے سٹیشن تک آئے تھے۔ پاکستان جانے والی ٹرین میں سوار ہوئے اور جب ریل گاڑی چل پڑی تو ہمارے پالتو بیل بھی گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑ پڑے۔ دونوں بیل ریل گاڑی کے ساتھ 15 سے 20 کلومیٹر تک دوڑتے رہے۔ یہ بیل اپنے مالکان کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اور ان کے ساتھ ہی پاکستان جانا چاہتے تھے۔‘

ضلع میانوالی کے علاقے پپلاں کے رہائشی ملک محمد طارق اکبر اسڑ کو یہ کہانی تقسیمِ ہند کے وقت ہندوستان سے پاکستان آنے والے ایک بزرگ نے سنائی تھی۔

ملک طارق اکبر اپنے فیس بک اور یو ٹیوب چینل پر 1947 میں تقسیمِ ہند کے وقت ہندوستان سے نقل مکانی کرکے پاکستان آنے والے افراد کی داستانیں ریکارڈ کرکے اپنے سوشل میڈیا چینل پر شائع کرتے ہیں۔

 بقول ملک طارق اکبر: ’یہ آسان کام نہیں ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ 20 منٹ یا آدھے گھنٹے کا انٹرویو کیا اور بس بات ختم، لیکن ایک انٹرویو کے لیے میرے چار سے پانچ دن لگتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایسے کرداروں کو تلاش کرنا پڑتا ہے، ان کو انٹرویو کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے، اس کے بعد انٹرویو کی ایڈیٹنگ اور پبلش کرنے میں بھی وقت درکار ہوتا ہے۔

طارق اکبر نے بتایا کہ وہ مختلف چک، دیہات یا گاؤں جاتے ہیں اور وہاں موجود مساجد میں بیٹھے لوگوں یا کسی دکاندار سے رابطہ کرتے ہیں جو انہیں ایسے بزرگ افراد کے بارے میں بتاتے ہیں جن کی عمر 90 برس سے زائد ہو۔ بقول طارق: ’پھر میں وہاں ایسے پہنچ جاتا ہوں جیسے شکاری کسی شکار کو تلاش کرتا ہے۔‘

ضلع بھکر کے علاقے کلور کوٹ کے ایک بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے ملک طارق اکبر کا کہنا تھا کہ ’میں جب وہاں بازار سے گزرا تو ایک بزرگ دکان پر بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ’بابا جی، آپ کو 1947 یاد ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ہاں یاد ہے۔ میرا ایک دوست تھا لکشمن داس اور اس کے والد کا نام تھا پوکر داس۔ قوم ان کی مہندی رتا تھی اور ان کی ایک کریانے کی دکان تھی۔ 1947 میں جب وہ یہاں سے جانے لگے تو میرے دوست کے والد نے میرے سر پر ہاتھ رکھا، مجھے چوما اور جتنا اپنا سامان تھا بیچ کے، ترازو اور اس کے باٹ اور ایک بکرا مجھے گفٹ کیا اور کہا کہ ہم یہاں سے جا رہے ہیں، دعاؤں میں یاد رکھنا۔ بس ایک نصیحت کر کے جا رہا ہوں کہ بیٹا پڑھائی ضرور کرنی ہے، ملازمت نہیں کرنی۔ یہ بات کہہ کہ وہ چلے گئے۔‘

 طارق اکبر کے مطابق جونہی میں نےان بزرگ کا انٹرویو یوٹیوب پر پوسٹ کیا تو کمنٹ سیکشن میں ایک کمنٹ آیا کہ ’جناب میرا نام دیہانت ہے۔ میں لکشمن داس کا بھتیجا ہوں۔ آج جس بابا غلام محمد کا آپ نے انٹرویو کیا ہے، آج بھی ان کا ذکر ہمارے گھر میں ہوتا ہے۔ ہمیں ان کا نمبر دیجیے۔

’پھر میں کلور کوٹ گیا اور بابا غلام محمد کے بھتیجے محمد اسماعیل کے ذریعے ان کا رابطہ ہوا 70 سال کے بعد۔ جس طرح کسی کا کوئی عزیز رشتہ دار گم ہو جائے اور 70 سال کے بعد مل جائے۔‘

طارق اکبر کے مطابق: ’ٹیلی فون پر میں ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ رو رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے کہ پپلاں کا مسکین شاہ کا دربار کیسا ہے۔ پپلا کا فقیرہ والا محلہ کیسا ہے۔ ایک ایک بات کو وہ یاد کر رہے تھے اور ہماری طرح بات کر رہے تھے۔ ان کا وہ جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ انسان اچھے برے نہیں تھے، وقت برا تھا۔ اللہ تعالی کبھی کسی ملک کی تاریخ میں بھی ایسا برا دور نہ لائے۔‘

طارق بتاتے ہیں کہ وہ تقسیمِ ہند کی یہ کہانیاں اکٹھی کرنے ہر جگہ جاتے ہیں، جن میں ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر، کلور کوٹ، ڈیرہ غازی خان، منکیرہ اور چکوال شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان بزرگوں کی داستانیں سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ ’مجھے انٹرویو دیتے وقت یہ بزرگ بچے بن جاتے ہیں اور میں ان کا بچہ بن جاتا ہوں۔ ان کے ساتھ جب اس موضوع پر بات کرتا ہوں تو چارپائی پر پڑے زندگی کے آخری دن گزارنے والے یہ 80، 90 سال کے بزرگ بڑے شوق سے اپنی داستانیں سناتے ہیں۔ یہ ہمارا اثاثہ ہیں۔ یہ آخری لوگ ہیں جو تقسیم ہند کے وقت ان مصائب سے بذات خود گزر کر آئے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو ایک اور واقعہ سناتے ہوئے ملک طارق اکبر نے بتایا کہ ’ایک بزرگ تقسیم کے بعد اپنا آبائی علاقہ دیو بند دیکھنے ہندوستان گئے۔ سردیوں کا موسم تھا، جب وہ نماز جمعہ پڑھ کے مسجد سے باہر نکلے تو انہوں نے اپنی چادر اوڑھی۔ اچانک ہی آواز آئی ’او لوکار (چادر) آلا، او بھائی لوکار آلا، چادر آلا، او شال آلا۔‘ جب آوازیں مسلسل آنا شروع ہوئیں اور انہوں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک شخص انہی کو پکار رہا تھا۔ وہ شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ ’بھائی آپ کہاں سے ہیں؟‘

 ’انہوں نے کہا کہ ’پاکستان سے‘ تو دوسرا شخص بولا: ’پاکستان کو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ پاکستان میں کہاں سے ہو؟‘ تو انہوں نےجواب دیا: ’پپلاں، میانوالی سے۔‘ تو وہ شخص بولا: ’آؤ  گلے ملو، میں روڈی کا ہندو ہوں (روڈی پپلاں شہرکے ساتھ ضلع بھکر کا علاقہ ہے جو بھکر ضلع بننے سے پہلے میانوالی میں شامل تھا)۔ میں تقسیم کے وقت روڈی چھوڑ کر پانی پت آ گیا ہوں۔ آپ کے شال اوڑھنے کے انداز سے مجھے پتہ چل گیا کہ آپ میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں انڈیا آ گیا تھا لیکن اپنی جنم بھومی کو نہیں بھولا۔‘ بزرگ کے مطابق ’اس شخص نے بہت اصرار سے مجھے کھانا کھلایا چائے پلائی، مجھے چوما اور بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔‘

طارق اکبر نے ایک دردناک واقعہ بھی سنایا، جو انہیں تقسیم کے وقت ہندوستان کے علاقے پٹیالہ سے پاکستان آنے والے ایک بزرگ رانا غلام حبیب نے سنایا تھا۔ بقول ان کے: ’یہ اگست کا مہینہ تھا، میں بازار سودا لینے گیا ہوا تھا کہ پیچھے سے بلوائیوں نے میرے خاندان کے 32 لوگ شہید کردیئے۔ صرف ایک میرا چار سال کا بھائی گھر میں زندہ بچا، جسے لے کر میں پاکستان آ گیا۔‘

بقول ملک طارق اکبر: ’دنیا بھر سے میرے چینل پر لوگ یہ انٹرویوز سنتے ہیں اور مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔ فیس بک پر لاکھوں لوگ یہ ویڈیوز دیکھ چکے ہیں۔ یہ درد بھری داستانیں سن کے لوگ روتے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھائی کے سلسلے میں گیا تو مجھے گھر بہت یاد آتا تھا، اسی گھر کی یاد کو لے کر میں نے سوچا کہ میں صرف چھ سال کے لیے یہاں آیا ہوں تو میری یہ حالت ہے کہ مجھ سے رہا نہیں جا رہا۔ تقسیمِ ہند کے وقت جن لوگوں کو اپنا علاقہ، اپنی زمینیں، کاروبار، دوست احباب اور رشتہ دار چھوڑنے پڑے تو ان کی کیا حالت ہوئی ہوگی تو اسی وجہ سے میں نے چھ سال قبل ہی اس بارے میں اپنا چینل بنایا اور ہندوستان سے نقل مکانی کرنے آنے والوں کی تلاش شروع کر دی۔‘

بقول طارق اکبر: ’بزرگ ملتے گئے، میں ان کی داستانیں کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتا گیا۔ کئی بزرگ اب وفات پا چکے ہیں تو میرے چینل پر ان کی ویڈیوز ان کے بچوں اور گھر والوں کو ان کی یاد دلاتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’تقسیمِ ہند کی کہانیاں بڑی دردناک ہیں۔ لوگ بہت مشکلات سے گزر کر مملکتِ خداد پاکستان پہنچے۔ ہمیں محبتوں کو فروغ دینا چاہیے۔ صرف ہندوستان اور پاکستان ہی امن اور محبت سے نہ رہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسا ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں دل فتح کیے جاتے ہیں۔ پیار اور محبت سے آپ سب کچھ فتح کر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی