تقسیم ہند کی سات دہائیوں بعد بھی مہاتما گاندھی نے کراچی کو نہیں چھوڑا 

کراچی کے مختلف علاقوں میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے اہم ترین کردار موہن داس کرم چند گاندھی سے منسوب نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔

بھارتی ریاست اترپردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سال 2018 میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے پورٹریٹ کو ہٹانے کے مطالبے میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پیش پیش تھی۔ بی جے پی کے پارلیمانی رہنما ستیش گوتم کے اس مطالبے کا بھارتی میڈیا میں بھی خوب چرچا رہا۔

دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موجود بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور ہندوستان کی تحریک آزادی کے اہم ترین کردار موہن داس کرم چند گاندھی کے کچھ مجسمے اور ان سے منسوب کچھ مقامات کے نام تو تبدیل کردیے گئے، مگر آزادی کے سات دہائیاں گزرنے کے باجود ان کے نام سے منسوب کئی نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔  

اتوار 30 جنوری کو گاندھی کی برسی کے موقع پر انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی میں ان کے نام سے منسوب مقامات کا جائزہ لیا ہے۔

موہن داس کرم چند گاندھی، جو عام طور پر مہاتما گاندھی کے نام سے جانے جاتے ہیں، کو 30 جنوری 1948 کو گاندھی سمرتی سابق برلا ہاؤس میں قتل کر دیا گیا تھا۔  

جوہری طاقت رکھنے والے ہمسایہ ممالک بھارت اور پاکستان میں مسلسل کشیدگی کے باوجود پاکستان کے تجارتی مرکز شہر کراچی میں آج بھی ایک سڑک کا نام مہاتما گاندھی کے نام سے منسوب ہے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام پر رکھے گئے ایم اے جناح روڈ، سابق بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کی عمارت کے قریب سے اردو بازار کی طرف جانے والی سڑک کا نام سرکاری کاغذات میں آج بھی ’موہن داس کرم چند گاندھی روڈ‘ ہے۔ مگر گوگل میں یہ سڑک صرف موہن روڈ کے نام سے سرچ کی جا سکتی ہے۔

یہ سڑک ایم اے جناح روڈ سے اردو بازار کے مرکزی چوراہے تک تقریباً 200 میٹر لمبی ہے۔ جس کے بعد یہ سڑک سندھ اسمبلی کی طرف جاتے ہوئے رابسن روڈ بن جاتی ہے۔ اور اس کے بعد سڑک کا نام کورٹ روڈ ہوجاتا ہے۔  

اگر آپ ایم اے جناح روڈ موہن روڈ پر روانہ ہوں تو آپ کے بائیں ہاتھ پر موجود مارکیٹ کا نام آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے نام سے ’بہادر شاہ ظفر مارکیٹ‘ رکھا گیا ہے۔

دائیں جانب تین منزلہ عمارت ’عظیم منزل‘ جس کی نچلی منزل پر واقع دکانوں میں ٹائر مارکیٹ قائم ہے، جبکہ باقی دو منزلوں میں رہائشی فلیٹ ہیں۔

عمارت پر لگی پتھر کی تختی کے مطابق یہ عمارت 1933 میں تعمیر ہوئی۔ عظیم منزل کے گھروں کی بالکنیوں کے درمیاں گول لوہے کی پلیٹ پر مہاتما گاندھی کی تصویر کندہ ہے۔

کچھ گھروں کی بالکنیوں میں موجود گاندھی کی تصویر پر رنگ لگا دیا گیا ہے۔ مگر تصویروں کی اکثریت آج بھی اصلی حالت میں ہے۔  

بہادر شاہ ظفر مارکیٹ اور ٹائر مارکیٹ کے دکاندار آپس میں مذاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ ’مارکیٹ میں روزانہ آنے جانے والے سینکڑوں لوگوں کو دیکھ کر گاندھی بالکنی سے مسکرا رہے ہیں۔‘ 

بہادر شاہ ظفر مارکیٹ کے ایک دکاندار محمد فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت علیحدہ ملک بن گئے۔ مگر اس سے پہلے ہم ایک تھے۔ ہم نے آزادی کی تحریک ایک ساتھ لڑی تھی۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے مگر قائداعظم اور مہاتما گاندھی بھارت اور پاکستان کے ہیرو ہیں۔‘ 

’ہم خوش ہیں کہ اتنے سالوں بعد بھی مہاتما گاندھی کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ لوگ یہاں آتے ہیں، تصویر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، لوگ ان بالکنیوں کی تصاویر بناتے ہیں۔‘

کراچی چیمبر آف کامرس کے مرکزی دروازے پر گاندھی کے نام کا سنگ بنیاد:

بانی پاکستان قائد اعظم کی مادر علمی سندھ مدرسۃ الاسلام کے سامنے موجود کراچی چیمبر آف کامرس کی عمارت جو تقسیم ہند سے پہلے انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن کی عمارت تھی۔ اس عمارت کے مرکزی دورازے پر سنگ بنیاد کا پتھر آج بھی موجود ہے۔ جس کے مطابق مہاتما گاندھی نے اس عمارت کا افتتاح آٹھ جولائی 1934 کو کیا تھا۔

اس تاریخی سنگ بنیاد کو عام طور پر اشتہارات والے پوسٹر لگا کر چھپا دیا جاتا ہے۔ جبکہ عمارت کے اسی ستون کے نیچے ایک اور سنگ بنیاد بھی تھا، جو بعد میں فٹ پاتھ میں چھپ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس عمارت میں مہاتما گاندھی کا ایک چھوٹے سائز کا مسجمہ بھی نصب تھا، جو پاکستان کی آزادی کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔  

گاندھی گارڈن کا نام تبدیل کرکے کراچی چڑیا گھر رکھ دیا گیا 

انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ سندھ کے مطابق پاکستان کا دوسرا قدیم اور ملک کا سب سے بڑا چڑیا گھر، کراچی زولاجیکل گارڈن یا المعروف کراچی چڑیا گھر سال 1799 میں قائم کیا گیا۔ جہاں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی فیکٹری قائم تھی، مگر بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی فیکٹری یہاں سے ختم کردی تھی اور 1839 میں جب انگریز سرکار نے اپنے فوجیوں کے لیے شہر میں کوارٹرز بنائے تو 43 ایکڑ پر محیط اس باغ کے پھل اور سبزیاں فوجیوں کے لیے بھیجی جاتی تھیں، اس وقت اس باغ کا نام ’سرکاری باغ‘ تھا۔  

انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ سندھ کے مطابق سال 1869 میں ’سرکاری باغ‘ کا نام تبدیل کرکے ’کوئن وکٹوریا گارڈن‘ کردیا گیا اور عام لوگ اسے رانی باغ کے نام سے پُکارتے تھے۔  

کراچی کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے مصنف اور صحافی اختر بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’1934 سے قبل کراچی چڑیا گھر کا نام وکٹوریہ گارڈن تھا، مگر جولائی 1934 میں جب مہاتما گاندھی کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں کراچی میونسپل کارپوریشن نے وکٹوریہ گارڈن میں استقبالیہ دیا۔ اس تقریب کے دوران باغ کا نام وکٹوریہ گارڈن سے بدل کر مہاتما گاندھی گارڈن رکھ دیا۔ جو بعد میں گاندھی گارڈن کے نام سے جانا جاتا تھا۔‘

اختر بلوچ کے مطابق 1953 میں گاندھی گارڈن کا نام تبدیل کرکے کراچی زولاجیکل گارڈن یا کراچی زو کردیا گیا۔

کراچی میں گاندھی کے اصلی قد کے برابر لگا کانسی کا مجسمہ اب اسلام آباد میں 

کراچی کی ایمپریس مارکیٹ سے برنس روڈ تک جانے والی سڑک شاہرائے لیاقت سے شروع ہو کر سندھ اسمبلی والی سڑک کو موجودہ وقت میں کورٹ روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جبکہ ماضی میں اس سڑک کا نام ’کنگز وے‘ تھا۔ اس سڑک پر سندھ اسمبلی سے متصل سندھ حکومت کے سرکاری دفاتر والے کمپلیکس ’سندھ سیکرٹریٹ‘ اور سندھ ہائی کورٹ کی تاریخی عمارت کے درمیاں واقع چوراہے کو اس وقت ’کبوتر چوک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں شہری کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں اور ہر وقت اس چوک پر کبوتر دیکھے جا سکتے ہیں۔

تقسیم ہند سے قبل انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن نے موجودہ کبوتر چوک کے بیچوں بیچ مہاتما گاندھی کے اصل قد کے برابر کا کانسی کا مجسمہ نصب کروایا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی معروف انگریزی اخبار ’ڈان‘ کے کئے سالوں تک کالم لکھنے والے نامور کالم نویس اردشیر کاؤس جی کے مطابق یہ مجسمہ 1931 میں نصب کیا گیا تھا۔  

سال 2012 میں اپنے انتقال سے قبل ڈان اخبار میں 2002 میں لکھے اپنے کالم میں کاؤس جی نے لکھا کہ ’جنوری 1948 میں کراچی میں ہندو مسلم فسادات کے بعد مقامی ہندو بڑی تعداد میں بھارت چلے گئے اور ان کی املاک پر قبضہ ہورہا تھا۔ اس وقت تک گاندھی کا مسجمہ اس جگہ پر نصب تھا۔‘ 

کاؤس جی کے مطابق ’ان فسادات کے دوران ایک دن قائداعظم کا ہائی کورٹ کے سامنے سے گزر ہوا تو انھیں مجسمے کی فکر ہوئی اور انھوں نے اپنے سیکریٹری ایس ایم یوسف کو کہا کہ گاندھی کے اس مجسمے کو حالات معمول پر آنے تک یہاں سے ہٹا دیا جائے۔‘

جس پر ایس ایم یوسف نے ان دنگے فسادات کی صورتحال میں کسی غیرجانبدار سے مدد لینے کا سوچا اور انہوں نے جمشید نوسروان جی سے رابطہ کرکے مدد کی درخواست کی۔ 

کاؤس جی کے مطابق جمشید نوسروان جی نے بائی ویربائی جی سپاری والا پارسی ہائی سکول یا بی وی ایس پارسی سکول کے سابق طالب علموں کو یکجا کرکے انھیں کچھ اوزار اور ایک گاڑی دی۔

کاؤس جی نے لکھا کہ 'ہم طلبہ نے رات کے اندھیرے میں مجسمے کو وہاں سے ہٹا کر میرے والد کے گھر منتقل کردیا گیا اور ایک خالی پڑے ہوئے گیراج میں رکھ دیا۔ جسے بعد میں بی وی ایس سکول منتقل کر کے طلبہ کو بڑهئی کا کام سکھانے والی کلاس میں لکڑیوں کے پیچھے چھپا دیا گیا تھا۔‘

’اس کے بعد بھارتی ہائی کمشنر سے رابطہ کرکے مجسمہ لینے کا کہا گیا مگر بہت عرصے تک بھارتی ہائی کمشنر نے رابطہ نہیں کیا۔ آخرکار 1988 میں یہ مجسمہ اسلام آباد منتقل کردیا گیا اور اس وقت بھارتی سفارت خانے کے دالان میں نصب ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان