وزیر اعظم کئیر سٹارمر ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان ایک جرات مندانہ اخلاقی مؤقف ہے لیکن ذرا قریب سے دیکھیں تو حقیقت کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔
فلسطین کو بطور ریاست ’تسلیم‘ کرنے کا مشروط اعلان نہ تو انصاف پر مبنی ہے اور نہ اصول پر۔ یہ پالیسی اتنی غیر اخلاقی ہے کہ مذاق لگتی ہے۔ گویا اس سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل بچوں پر بمباری کرتا رہے، زمین ہتھیاتا رہے اور پوری آبادی کو بھوکا رکھ کر جھکانے کی کوشش کرتا رہے، تو ہاں، برطانیہ فلسطین کو تسلیم کر سکتا ہے۔
لیکن اگر اسرائیل مہربانی سے پیش آئے، جنگ بندی پر راضی ہو جائے اور امن کی طرف واپس آئے، تو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
یہ کیسا انصاف ہے جو ایسے اصولوں پر مبنی ہو؟ یہ سفارت کاری نہیں، اخلاقی بلیک میلنگ ہے۔ یعنی برطانیہ فلسطینیوں کو کہہ رہا ہے: ’تمہارا وجود تمہارا اپنا حق نہیں۔ یہ مکمل طور پر تمہارے قابض کے رویے پر منحصر ہے۔‘
جب میں غزہ میں موجود اپنی بہن سے برطانیہ کے اس اعلان کے بارے میں رائے پوچھی تو اس کا پہلا ردعمل ہنسی تھا۔
اس نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا ہمیں واقعی پروا ہے کہ برطانیہ ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے۔ ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ ہم اس حال میں ہیں تو انہی کی وجہ سے۔ ہم تو صرف زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
دنیا کے تمام ممالک میں سب سے پہلے برطانیہ کو سمجھنا چاہیے تھا کیوں کہ یہ برطانیہ ہی تھا جس نے بالفور اعلامیے کے ذریعے ہماری بےدخلی کی بنیاد رکھی۔
برطانیہ نے نکبہ کے وقت خاموشی اختیار کی، جب اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ لاکھوں فلسطینی بےگھر ہوئے۔ برطانیہ نے اسرائیل کو قبضے، محاصرے اور قتل عام کے دوران اسلحہ دیا، فنڈز دیے اور اب، جب غزہ کو تاریخ سے مٹایا جا رہا ہے، برطانیہ اب بھی یہ کہنے سے قاصر ہے کہ فلسطینی ایک ایسی قوم ہیں جو آزادی اور وقار کے ساتھ جینے کا حق رکھتے ہیں۔
جب میری 14 سالہ بھانجی نے اپنی ماں سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ ہمیں تسلیم کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم پہلے سے موجود نہیں؟
تو میری بہن نے بتایا کہ سب اس کی بات پر ہنس پڑے، اس لیے نہیں کہ یہ مزاحیہ تھا بلکہ اس لیے کہ یہ مضحکہ خیز تھا۔
حتیٰ کہ ایک بچی بھی اس پاگل پن کو سمجھ گئی لیکن ایک حکومت کہہ رہی ہے کہ شاید وہ تمہیں اس وقت تسلیم کرے جب تمہاری قوم کو مزید مارا جائے۔
سٹارمر نے فلسطینی ریاست کے قیام کو ایک 'ناقابل تنسیخ حق' کہا، لیکن کوئی حق ایسا نہیں ہوتا جسے مؤخر کیا جائے، چھین لیا جائے یا دھمکی کے طور پر استعمال کیا جائے۔
اگر کسی حق پر شرط لگا دی جائے، خاص طور پر اس ریاست کے لیے لگائی ہو جو ہم پر قابض ہو اور ہم پر بمباری کر رہی ہے، تو وہ حق نہیں رہتا، سودا بن جاتا ہے۔
اور بدترین بات یہ ہے کہ یہ سب خلوص سے بھی عاری ہے۔ یہ فلسطینیوں کے بارے میں نہیں۔
یہ سٹارمر کی اپنی سیاسی چال ہے تاکہ وہ دنیا کو دکھائیں کہ وہ اصول پسند ہیں لیکن ساتھ وہ امریکہ کی پالیسی، اسلحہ معاہدوں اور اندرون ملک اسرائیل نواز لابی سے بھی ہم آہنگ رہنا چاہتے ہیں۔
فلسطینیوں کو لگتا ہے کہ دنیا کہہ رہی ہے: تمہارا درد، ظلم، تمہاری تاریخ، تمہاری بے دخلی، غزہ میں 60 ہزار سے زائد افراد کا قتل بھی ہماری حمایت کے لیے کافی نہیں۔ لیکن اگر تمہاری لاشوں سے ہم اسرائیل کو شرمندہ کر سکیں، تو شاید ہم ’فلسطین‘ لفظ بغیر ہچکچائے بول سکیں۔
یہ سب نہایت کریہہ ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے کسی تشدد کی خاتون سے کہا جائے کہ اگر تمہارا شوہر تمہیں مارتا رہے گا، تو میں تمہارا درد تسلیم کر لوں گا لیکن اگر وہ رک گیا تو تم خود ہی سنبھل جاؤ گی، ٹھیک ہے؟
تسلیم کرنا انسانیت کی توثیق ہوتا ہے۔ لیکن سٹارمر کے ہاتھوں میں یہ ہمارے مظالم کرنے والوں کو سزا دینے کا آلہ بن گیا ہے۔ اور اگر وہ کامیاب ہو گئے، اگر اسرائیل جنگ بندی مان لے اور زمین ہتھیانا بند کر دے تو ہم، مظلوم، خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ ہم بس ایک بار پھر انتظار کریں گے۔
یہ غیر جانب داری نہیں، بلکہ شراکت داری ہے مگر حکمت عملی کے لباس میں۔ یہ پیغام دیتا ہے کہ فلسطینیوں کو مرتے رہنا ہو گا تاکہ وہ سیاسی طور پر ’قابلِ استعمال‘ رہیں۔ جنگ بندی شاید اسرائیل کے لیے بہتر ہو لیکن ہمارے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے تسلیم کا عمل مزید مؤخر ہو سکتا ہے۔
یہ تضاد اتنا مضحکہ خیز ہے کہ توہین محسوس ہوتی ہے۔ جتنا زیادہ ہمیں مارا جائے، اتنا ہی ہمارے انسان ہونے کا امکان بڑھتا ہے اور جوں ہی وہ ذرا تھمتے ہیں، ہم دوبارہ مٹا دیے جاتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ ایسی قیادت جو انسانی حقوق کو اس سطح کے سودے میں بدل دے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کی بجائے ہمیں کہا جاتا ہے کہ اس وقت تک انتظار کرو جب تک ہماری موت ان کی سیاست کے کام نہ آ جائے۔ انتظار کرو جب تک ہمارا دکھ کسی کے لیے فائدے کا ذریعہ نہ بن جائے۔ انتظار کرو جب تک سٹارمر کو اسرائیل کو کوئی پیغام دینا نہ ہو۔ تب ہی شاید ہمیں تسلیم کرنے کے قابل سمجھا جائے۔
لیکن ہم دہائیوں سے انتظار کر رہے ہیں، ہر جنگ کے بعد، ہر ناکام ’امن عمل‘ کے بعد، ہر توہین، ہر قتل عام، ہر وعدہ خلافی کے بعد۔
ہم انتظار کرتے رہے جبکہ برطانیہ اور مغرب ہمیں صبر کا مشورہ دیتے رہے۔ جبکہ وہ ہمارے ظالموں کو تسلیم کرتے، انہیں فنڈ دیتے، اسلحہ فراہم کرتے اور ہمیں ملبے میں دفن کر کے ان کے ’تحمل‘ کی تعریف کرتے رہے۔
اگر تسلیم کرنا ایسا ہی ہوتا ہے، تو یہ تسلیم نہیں بلکہ مذاق ہے۔ ایک ظالمانہ، ذلت بھرا مذاق، اور وہ بھی ایک ایسی قوم کے ساتھ جو پہلے ہی سب کچھ کھو چکی ہے۔
کیونکہ اگر دنیا کی جانب سے ہمارے جینے کے حق کو تسلیم کرنا ہمارے قاتلوں کے رویے پر منحصر ہے تو یہ ’تسلیم‘ کوئی تحفہ نہیں بلکہ وہ ایک اور قسم کا تشدد ہے۔
اور اگر برطانیہ ہماری انسانیت کی توثیق اسرائیل کی اجازت سے مشروط کرتا ہے، تو اس تسلیم کی کوئی وقعت نہیں۔
یہ قیادت نہیں، یہ بزدلی ہے اور تاریخ اسے ایسے ہی یاد رکھے گی۔
مصنف احمد نجار ایک فلسطینی ماہر اقتصادیات اور مبصر ہیں جو لندن میں مقیم ہیں۔
© The Independent