وقت آ گیا کہ برطانیہ فلسطین کو تسلیم کر لے

اسرائیل فلسطین تنازعے پر برطانیہ کے اقدامات ہمیشہ بہت تاخیر سے اور نہایت ناکافی ثابت ہوئے۔

بے گھر فلسطینی نو فروری، 2025 کو شمالی غزہ کی جانب جاتے ہوئے نتزارم راہ داری سے گزر رہے ہیں (اے ایف پی)

بارہا ایسا ہو چکا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعے پر برطانیہ کے اقدامات ہمیشہ بہت تاخیر سے اور نہایت ناکافی ثابت ہوئے۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کے پاس اب عمل کرنے کا موقع ہے۔ برطانیہ کو فرانس کی پیروی کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ جب تک فلسطین موجود ہے اور اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ کا دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ اس تنازعے کا واحد قابل قبول حل دو ریاستی حل ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ان میں سے صرف ایک ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔

فلسطین کو تسلیم کرنا اس وقت سے لیبر پارٹی کی پالیسی ہے جب میں شیڈو وزیر خارجہ تھی۔ گذشتہ برس ہم جس منشور پر منتخب ہوئے، اس میں بھی یہی شامل تھا۔

نیز فلسطین کو فوری تسلیم کرنے کے اقدام کی حمایت خارجہ امور کمیٹی کی اکثریت بھی کرتی ہے، جس کی میں سربراہ ہوں اور جو آج اسرائیل فلسطین تنازعے پر اپنی رپورٹ شائع کر رہی ہے۔

جب میں حکومت سے پوچھتی ہوں کہ فلسطین کو کب تسلیم کیا جائے گا؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہم اسے اس وقت تسلیم کریں گے جب اس اقدام کا زیادہ سے زیادہ اثر ہو گا۔

لیکن ہم ہمیشہ اس کامل لمحے کا انتظار نہیں کر سکتے جو شاید کبھی نہ آئے۔ میرے ذہن میں ایسے بہت سے مواقع ہیں کہ اگر ہم نے اس وقت یہ قدم اٹھایا ہوتا تو اس کا نمایاں اثر ہوتا۔

ہم ایک اور موقع ضائع نہیں ہونے دے سکتے۔

پیر کو نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ میزبانی میں دو ریاستی حل کے موضوع پر ایک طویل عرصے سے منتظر کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے۔

کانفرنس سے قبل فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو ستمبر میں تسلیم کر لیں گے۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ میکروں برطانوی حکومت کو فرانس کے ساتھ فلسطین کو تسلیم کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے پارلیمان سے خطاب میں انہوں نے واضح طور پر ہمیں یہی بتایا۔

وہ بالکل درست کہتے ہیں۔ خفیہ سائیکس پیکو معاہدے، جس نے دو ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل مشرق وسطیٰ کو تقسیم کیا، پر دستخط کرنے والے ملک مل کر قدم اٹھائیں تو اس سے دو ریاستی حل کے حوالے سے ہمارے مخلصانہ عزم کا اظہار ہو گا۔

ستمبر میں اقوام متحدہ میں رہنماؤں کی ملاقات اس کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔

بے شک اس وقت سب سے زیادہ ضروری فوری فائر بندی ہے اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام امداد کا غزہ میں فوری داخلہ ہے۔ صرف تسلیم کرنے سے امن قائم نہیں ہوتا۔

لیکن یہ قدم برطانیہ کی خلیجی اور عرب ریاستوں سمیت دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر امن کا دیرپا منصوبہ تیار کرنے کی سنجیدہ کوشش کا آغاز ہو سکتا ہے۔

اس سے واضح پیغام جائے گا کہ ہم مسئلے کے حل میں مخلص اور مستقل طور پر شامل ہیں۔

اس سے اسرائیلی حکومت پر بھی واضح ہو گا کہ برطانیہ وہ فیصلہ کن اقدام کرنے کے لیے تیار ہے جس کا وعدہ برطانوی وزیرِ خارجہ نے پیر کو 27 اتحادی ممالک کے ساتھ مشترکہ بیان میں کیا۔

اس کے ساتھ ہی یہ لازم ہے کہ شدت پسند آبادکاروں اور ان کمپنیوں کے خلاف بھی سخت کارروائی ہو جو بستیوں کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

یہ اقدامات فلسطینیوں کی زمین پر قبضے کر کے دو ریاستی حل کو ہی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

میری کمیٹی کی رپورٹ میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ برطانیہ کو ان آبادکاروں پر پابندیاں عائد کرنی چاہییں اور ان بستیوں کی مصنوعات کی درآمد پر پابندی لگانی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزہ میں فاقہ کشی اور اموات کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھ کر برطانوی عوام کا قدرتی ردعمل یہ ہے کہ وہ اپنے سیاست دانوں سے عملی قدم اٹھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اب سیاست دانوں کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ ایسا قدم اٹھائیں جس سے حقیقی فرق پڑے۔

فلسطین کو تسلیم کرنا اور امن کے عمل کے لیے نئے سرے سے برطانیہ کی وابستگی کا اظہار ایسا ہی ایک قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

برطانیہ نے خود کہا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے معاملے پر وہ فرانس کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

اب جبکہ فرانس نے ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، تو کیا برطانیہ کی حکومت سے یہ توقع رکھنا غلط ہو گا کہ وہ بھی فرانس کے ساتھ اس اقدام میں شامل ہو؟

میں، میری کمیٹی اور برطانوی عوام امید سے اس پر نظر رکھیں گے۔

ایملی تھورنبیری ازلنگٹن ساؤتھ اور فنزبری سے لیبر رکن پارلیمنٹ اور خارجہ امور کمیٹی کی سربراہ ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ