برطانیہ کے مشہور گلاسٹنبری میوزک فیسٹیول میں ہفتے کو پرفارمرز نے حاضرین سے اسرائیلی فوج کے خلاف اور فلسطین کی آزادی سے متعلق نعرے لگوائے۔
ریپ پنک جوڑی ’باب وائلن‘ نے سٹیج پر آ کر اسرائیلی فوج کے خلاف ’آئی ڈی ایف مردہ باد‘ (death, death to the IDF) کے نعرے لگوائے۔
برطانوی افسران باب وائلن کے نعروں کی ویڈیوز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
برطانیہ میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس واقعے کے بعد ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا کہ وہ ’اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانیے‘ سے سخت پریشان ہیں۔
فیسٹیول میں آئرش ریپ ٹرائیو نی کیپ (Kneecap) نے اپنی پرفارمنس کے دوران وزیر اعظم کیئر سٹارمر کو ہدف تنقید بنایا۔
نی کیپ نے حالیہ مہینوں میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل مخالف مؤقف کے باعث خبروں میں جگہ بنائی ہے۔
ان کے ایک رکن پر حزب اللہ کی حمایت کے الزام میں ’دہشت گردی‘ کی فرد جرم عائد ہو چکی ہے، جس کے بعد برطانوی وزیراعظم سٹارمر اور دیگر سیاست دانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ نی کیپ کو فیسٹیول کی فہرست سے نکالا جائے۔
نی کیپ نے ہزاروں مداحوں کے سامنے، جن میں سے کئی فلسطینی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے، سٹارمر کے خلاف نعرے لگوائے۔
رکن لیام اوہانا نے کہا ’گلاسٹنبری، میں ایک آزاد آدمی ہوں۔‘
وہ اس ماہ کے اوائل میں عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے حزب اللہ کا جھنڈا دکھایا اور ’ حماس اور حزب اللہ کے حق میں نعرے لگائے۔
یہ ویڈیو گذشتہ سال لندن کے ایک کنسرٹ سے منظر عام پر آئی تھی۔حزب اللہ اور حماس کو برطانیہ میں ممنوع قرار دیا گیا ہے اور ان کی حمایت کا اظہار جرم تصور ہوتا ہے۔
اوہانا نے، جن کا سٹیج نام ’مو چارا‘ ہے نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے کہا ’یہ صورت حال کافی دباؤ ڈالنے والی ہو سکتی ہے لیکن یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو فلسطینی عوام برداشت کر رہے ہیں۔‘
اوہانا نے ’فلسطین ایکشن گروپ‘ کو بھی ’شاؤٹ آؤٹ‘ دیا، جسے گذشتہ ہفتے وزیر داخلہ یوویٹ کوپر نے دہشت گردی کے ایکٹ 2000 کے تحت ایک ممنوعہ تنظیم قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔
بینڈ کے دوسرے رکن ’ڈی جے پرووائی‘ نے اسی گروپ سے منسوب ایک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جس پر پابندی اس وقت لگی جب گروپ کے کارکنوں نے برطانوی رائل ایئر فورس کے ایک اڈے پر دھاوا بول کر دو طیاروں کو نقصان پہنچایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی میڈیا کے مطابق مقامی پولیس دونوں گروپس کی تقاریر اور ویڈیوز کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ یہ طے کر سکے کہ آیا کوئی جرم سرزد ہوا یا نہیں۔
2017 میں بننے والے گروپ ’نی کیپ‘ کو ان کے مداح انہیں ایک جرات مند آواز سمجھتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہوتا ہے جبکہ ان کے ناقدین انہیں انتہاپسند قرار دیتے ہیں۔
نی کیپ نے دہشت گردی کے الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کے جھنڈے والی ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
گارڈین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب چارا سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جھنڈا لہرانے اور دیگر بیانات پر پچھتاتے ہیں تو انہوں نے کہا ’مجھے کیوں پچھتانا چاہیے؟ وہ ایک مذاق تھا — ہم کردار ادا کر رہے تھے۔‘
32 سالہ کرس جیفریز نے، جو ایک بینک میں تجزیہ کار ہیں، اے ایف پی کو بتایا کہ گلاسٹنبری میں نی کیپ کی پرفارمنس نے انہیں بطور مداح فخر محسوس کرایا۔
’یہ ان چند بینڈز میں سے ایک ہیں جو درحقیقت فلسطین کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں۔‘
اوہانا پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد سے اس گروپ کو کئی شوز سے نکال دیا گیا، جن میں سکاٹ لینڈ کے ایک فیسٹیول میں شرکت اور جرمنی کی متعدد پرفارمنسز شامل ہیں۔
لیکن گلاسٹنبری کے منتظمین نے وزیر اعظم سٹارمر کی اس رائے کو نظر انداز کر دیا کہ نی کیپ کا گلاسٹنبری جیسے بڑے اور معروف میوزک فیسٹیول میں پرفارم کرنا ’موزوں نہیں‘۔
پبلک براڈکاسٹر بی بی سی پر بھی دباؤ تھا کہ وہ یہ کنسرٹ نشر نہ کرے۔ ہفتے کو جاری کردہ بیان میں بی بی سی کے ترجمان نے کہا کہ یہ پرفارمنس براہ راست نشر نہیں کی جائے گی البتہ بعد میں آن ڈیمانڈ کے طور پر دستیاب ہونے کا امکان ہے۔
حکومت نے اتوار کو کہا کہ فیسٹیول میں موسیقاروں کی جانب سے اسرائیل پر تنقید کے حوالے سے بی بی سی کو کچھ سوالات کے جواب دینے ہوں گے۔