غزہ جانے والی کشتی پر اسرائیل کا قبضہ، امدادی کارکن ’اغوا‘: منتظمین

غزہ جانے والی امدادی کشتی کے منتظمین نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے کشتی کو روک کر مسافروں کو ’اغوا‘ کر لیا۔

 

اسرائیلی فورسز نے پیر کی صبح غزہ جانے والی ایک امدادی کشتی کو روک کر اس پر سوار گریٹا ٹونبرگ سمیت دیگر امدادیکارکنوں کو گرفتار لے لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ کارکن اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر عائد پابندیوں کے خلاف بھی آواز بلند کر رہے تھے۔ اسرائیلی جارحیت اور محاصرے نے تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں پر مشتمل اس علاقے کو قحط کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

فریڈم فلوٹیلا کولیشن، جس نے اس سفر کا اہتمام کیا، نے کہا کہ کارکنوں کو اس وقت ’اسرائیلی فورسز نے اغوا کر لیا‘ جب وہ انتہائی ضروری امداد غزہ پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’کشتی پر غیر قانونی طور پر چڑھائی کی گئی، اس کے غیر مسلح سول عملے کو اغوا کیا گیا اور اس کی زندگی بچانے والی امداد، جس میں بچوں کا دودھ، خوراک اور طبی سامان شامل تھا، ضبط کر لیا گیا۔‘

بیان میں مزید بتایا گیا کہ کشتی کو بین الاقوامی پانیوں میں غزہ سے تقریباً 200 کلومیٹر (120 میل) دور روکا گیا۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اس سفر کو مشہوری کی کوشش قرار دیا، اور ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’مشہور شخصیات‘ کی ’سیلفی‘ محفوظ طریقے سے اسرائیل کے ساحل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

کشتی کے پیر کو اسرائیلی بندرگاہ اشدود پہنچنے کی توقع ہے۔

وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ کارکنوں کو ان کے  ملکوں میں واپس بھیج دیا جائے گا اور امداد کو طے شدہ طریقوں سے غزہ منتقل کیا جائے گا۔

ہفتے بھر کا سفر

گریٹا ٹونبرگ سمیت 12 امداد کارکن ’میڈلین‘ نامی کشتی پر سوار ہیں جس نے ایک ہفتہ قبل سسلی سے سفر کا آغاز کیا۔

راستے میں کشتی کو جمعرات کو ان چار تارکین وطن کو بچانے کے لیے رکنا پڑا، جنہوں نے لیبیا کے کوسٹ گارڈ کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچنے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔

ٹونبرگ نے کشتی روکے جانے کے بعد جاری کیے گئے ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ ’میں اپنے تمام دوستوں، خاندان اور ساتھیوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ سویڈش حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ مجھے اور دیگر افراد کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔‘

ریما حسن، فلسطینی نژاد فرانسیسی رکن یورپی پارلیمنٹ، بھی اس کشتی پر موجود رضاکاروں میں شامل ہیں۔ انہیں اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف موقف کی وجہ سے اسرائیل میں داخلے سے روک دیا گیا۔

ڈھائی ماہ کے مکمل محاصرےکے بعد اسرائیل نے گذشتہ ماہ غزہ میں کچھ بنیادی امداد داخل ہونے کی اجازت دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم امدادی کارکنوں اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جب تک محاصرہ ختم نہیں کیا جاتا اور اسرائیل اپنی فوجی کارروائی بند نہیں کرتا، قحط کا خطرہ برقرار رہے گا۔

فریڈم فلوٹیلا کی جانب سے گذشتہ ماہ غزہ تک سمندری راستے پہنچنے کی ایک اور کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب گروپ کے ایک اور جہاز پر، منتظمین کے مطابق، مالٹا کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں سفر کے دوران دو ڈرون حملے ہوئے۔

گروپ نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا، جس سے جہاز کے اگلے حصے کو نقصان پہنچا۔

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز  کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا ’میں نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ کشتی ’میڈلین‘ کو غزہ پہنچنے سے روکے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’گریٹا، جو ایک یہود مخالف ہیں اور ان کے ساتھی، جو حماس کے پروپیگنڈا ترجمان ہیں، میں ان سے واضح الفاظ میں کہتا ہوں واپس چلے جاؤ کیونکہ تم غزہ نہیں پہنچ سکو گے۔‘

اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ بحریہ نے کشتی کو ایک ’ممنوعہ علاقے‘ کے قریب پہنچنے پر راستہ بدلنے کی ہدایت کی تھی۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد وزارت نے کہا کہ کشتی کو اسرائیلی ساحل کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ وزارت نے سوشل میڈیا پر لکھا ’مسافروں کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔‘

وزارت نے مزید کہا ’کشتی میں موجود تھوڑی سی امداد، جو ’سیلیبریٹیز‘ نے استعمال نہیں کی، اسے حقیقی انسانی ہمدردی کے ذرائع سے غزہ پہنچایا جائے گا۔‘

مہم کے منتظمین نے اتوار کو کہا تھا کہ ان کی کشتی ’آخری لمحے تک‘ اپنا سفر جاری رکھے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا