اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں ایک ایسے مسلح گروہ کی حمایت کر رہا ہے جو عسکریت پسند تنظیم حماس کا مخالف ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق یہ بیان ایک سابق وزیر کے اس انکشاف کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اس گروہ کو اسلحہ فراہم کیا ہے۔
اسرائیلی اور فلسطینی میڈیا کے مطابق، جس گروہ سے اسرائیل تعاون کر رہا ہے وہ یاسر ابو شباب کی قیادت میں ایک مقامی بدو قبیلے کا حصہ ہے۔
یورپی تھنک ٹینک یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز ( ای سی ایف آر) نے ابو شباب کو ’رفح کے علاقے میں سرگرم ایک مجرمانہ گروہ کا سربراہ قرار دیا ہے جس پر امدادی ٹرکوں کو لوٹنے کے الزامات ہیں۔‘
اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کے رکن اور سابق وزیرِ دفاع ایویگڈور لائبرمین نے ’کان‘ پبلک براڈکاسٹر کو بتایا کہ حکومت نے نیتن یاہو کی ہدایت پر ’مجرموں اور جرائم پیشہ افراد کو اسلحہ فراہم کیا۔‘
اس پر نیتن یاہو نے جمعرات کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں کہا: ’لائبرمین نے کیا انکشاف کیا؟۔۔۔ کہ سکیورٹی حکام کے مشورے پر ہم نے غزہ میں ان قبائل کو متحرک کیا جو حماس کے مخالف ہیں۔ اس میں برا کیا ہے؟ یہ تو اچھا ہے، یہ اسرائیلی فوجیوں کی جان بچا رہا ہے۔‘
تل ابیب کے موشے دیان سینٹر سے منسلک فلسطینی امور کے ماہر مائیکل ملشٹائن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ابو شباب ایک ایسے بدو قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی موجودگی غزہ اور مصر کے سرحدی علاقے سینا تک پھیلی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قبیلے کے کچھ افراد ’منشیات کی سمگلنگ اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘
اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی دیفرن نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ فوج غزہ میں مقامی ملیشیاؤں کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات دینے سے گریز کیا۔
جنرل ایفی سے ایک ٹیلی ویژن پریس کانفرنس کے دوران جب اس موضوع پر سوال کیا گیا تو مزید وضاحت کیے بغیر انہوں نے کہا: ’میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم حماس کی حکمرانی کے خلاف مختلف طریقوں سے کام کر رہے ہیں۔‘
ملشٹائن کے مطابق، ابو شباب نے غزہ میں کچھ وقت جیل میں گزارا اور حال ہی میں ان کے قبیلے کے سرداروں نے انہیں اسرائیلی ’کارندہ اور گینگسٹر‘ قرار دے کر لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
انہوں نے کہا:’ایسا لگتا ہے کہ شاباک (اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی) یا فوج نے یہ سوچا کہ اس گینگ کو پراکسی فورس بنا دینا ایک زبردست آئیڈیا ہے، انہیں اسلحہ، پیسے اور فوجی کارروائیوں سے تحفظ دیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے حالیہ دنوں میں اس گروہ کے چار افراد کو ہلاک کیا۔
یورپی تھنک ٹینک ای سی ایف آر کے مطابق، ابو شباب کو ماضی میں حماس نے منشیات سمگلنگ کے الزام میں جیل بھیجا تھا، جبکہ ان کے بھائی کو اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں پر حملے کے دوران حماس کے کریک ڈاؤن میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل اکثر حماس پر غزہ میں امدادی قافلے لوٹنے کا الزام لگاتا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ اس گروہ نے ’غداری اور چوری کا راستہ اپنایا‘ اور شہریوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی مخالفت کریں۔
غزہ پر دو دہائیوں سے حکومت کرنے والی حماس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ’ان واضح روابط کے شواہد موجود ہیں جو ان لوٹ مار کرنے والے گروہوں، اسرائیل کے کارندوں، اور دشمن فوج کے درمیان پائے جاتے ہیں، جو انسانی بحران پیدا کر کے فلسطینی عوام کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔‘
ابو شباب کا گروہ، جو خود کو ’پاپولر فورسز‘ کہتا ہے نے فیس بک پر کہا: ہم کبھی قبضے (اسرائیل) کے آلہ تھے اور نہ ہی کبھی بنیں گے۔ ہمارے ہتھیار سادہ اور پرانے ہیں، جو ہمیں اپنے لوگوں کی مدد سے حاصل ہوئے ہیں۔‘
ملشٹائن نے اسرائیل کی جانب سے ابو شباب جیسے گروہ کو اسلحہ دینے کے فیصلے کو ’ایک خیالی تصور‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’مجھے شدید خدشہ ہے کہ یہ کسی تباہی پر ختم نہ ہو۔‘