فرانس کا فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ’مملکت اس تاریخی فیصلے کو سراہتی ہے، جو فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور ایک آزاد ریاست کے قیام کے حوالے سے عالمی برادری کے اتفاقِ رائے کی توثیق کرتا ہے۔‘

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون 10  جولائی 2025 کو برطانوی وزیر اعظم کے ہمراہ شمال مغربی لندن میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

فرانس کی جانب سے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے اعلان کا سعودی عرب اور دیگر ممالک نے خیر مقدم کیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔

میکروں نے یہ اعلان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کیا اور فلسطینی صدر محمود عباس کو ایک خط بھی بھیجا جس میں فرانس کے اس ارادے کی تصدیق کی گئی کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا اور دیگر ممالک کو بھی اس کی ترغیب دے گا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق میکروں نے کہا ’مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے اپنی تاریخی وابستگی کے تحت میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا ’میں یہ باضابطہ اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر میں کروں گا۔‘

فرانسیسی حکام نے کہا کہ اس اقدام سے اقوام متحدہ میں دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کے لیے حمایت حاصل کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔

فرانس پہلا بڑا مغربی یورپی ملک ہو گا جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، جس سے ممکنہ طور پر اسرائیل مخالف ممالک کے موجودہ دباؤ میں اضافہ ہو گا۔

اس اعلان کے بعد عالمی برادری میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب نے فرانسیسی صدر کے اس اعلان کو ’تاریخی‘ قرار دیا۔

سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ’مملکت اس تاریخی فیصلے کو سراہتی ہے، جو فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور ایک آزاد ریاست کے قیام کے حوالے سے عالمی برادری کے اتفاقِ رائے کی توثیق کرتا ہے۔‘

’فرانس کا اعلان مثبت قدم‘

فلسطینی تنظیم حماس نے فرانس کے اس اعلان کو ’مثبت قدم‘ قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔

بیان میں کہا گیا ’ہم اسے ہمارے مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کرنے اور ان کے حق خودارادیت کی حمایت کی جانب ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں۔ 

’ہم دنیا کے تمام ممالک — خاص طور پر یورپی ممالک اور وہ جو اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کر سکے — سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فرانس کے نقشِ قدم پر چلیں۔‘

’کیا صرف تسلیم کرنا کافی ہے؟‘

جمعرات کو فلسطینی صدر محمود عباس کے نائب حسین الشیخ نے میکروں کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ’بین الاقوامی قانون سے فرانس کی وابستگی اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت و آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کا اظہار ہے۔‘

بعض فلسطینیوں نے مطالبہ کیا کہ فرانس اسرائیل پر پابندیاں بھی عائد کرے۔ معین برغوثی نے کہا ’ہم دنیا کے ہر اس ملک کی عزت کرتے ہیں جو ہمارے ریاستی قیام کے حق کو تسلیم کرتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف تسلیم کرنا کافی ہے یا فرانس عملی اقدامات بھی کرے گا؟‘

سپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے بھی فرانس کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو ریاستی حل کو تحفظ دے گا۔

انہوں نے کہا ایکس پر لکھا ’ہمیں مل کر اس (اسرائیلی وزیر اعظم) نتن یاہو کے اس منصوبے کو روکنا ہوگا جو دو ریاستی حل کو تباہ کر رہا ہے۔ یہی واحد حل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے بھی اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے اسے غزہ میں انسانی بحران کے سدباب میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور دو ریاستی حل کی حمایت دہرائی۔

انہوں نے کہا ’کینیڈا تمام فریقین سے فوری فائر بندی کی اپیل کرتا ہے۔ ہم حماس سے تمام قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی حکومت سے مغربی کنارے اور غزہ کی علاقائی سالمیت کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

اسرائیل اور امریکہ ناراض

اس اعلان پر اسرائیل اور امریکہ نے شدید ناراضی ظاہر کی ہے۔ 

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اسے ’دہشت گردی کا انعام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کی تباہی کا ذریعہ بنے گی، نہ کہ امن کے لیے کوئی راستہ۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر کہا ’واضح کر دوں، فلسطینی اسرائیل کے ساتھ رہنے کے لیے ریاست نہیں چاہتے بلکہ اسرائیل کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔‘

نتن یاہو نے ایکس پر لکھا ’ان حالات میں ایک فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کو تباہ کرنے کا لانچ پیڈ ہوگا، نہ کہ امن کا راستہ۔‘

وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے اس اقدام کو ’شرم ناک اور دہشت گردی کے آگے ہتھیار ڈالنے‘ کے مترادف قرار دیا۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ امریکہ ’میکروں کے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔‘ 

انہوں نے اسے حماس کی تشہیر کا ذریعہ اور امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔

مارکو روبیو نے کہا ’یہ غیر ذمہ دارانہ اقدام حماس کے پروپیگنڈہ کو تقویت دیتا ہے اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ سات اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر طمانچہ ہے۔‘

امریکی صدر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود بھی دو ریاستی حل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور فروری میں غزہ کو امریکہ کے زیرِ قبضہ لینے کی تجویز پیش کی تھی، جسے انسانی حقوق کی تنظیموں، عرب ریاستوں، فلسطینیوں اور اقوامِ متحدہ نے ’نسلی تطہیر‘ کی تجویز قرار دے کر مسترد کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا